021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کی تقسیم کا ایک مسئلہ(بیوہ،دوبیٹوں اور ایک بیٹی میں میراث کی تقسیم)
82465میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ربڈنو نامی شخص کا انتقال 2011میں ہوا ، اس کی  اولاد  میں چار  بیٹےاور   ایک بیٹی ہیں ،﴿ انور حسن ، غلام قادر،محمد حسن  اور منورحسین تاج  بی بی﴾اور رب ڈنو کی دوشادیاں  تھیں ، کرم سائیں اور کز بانو،اولاد  میں  سے انور حسین اور غلام   قادر کی وفات  رب ڈنو کی زندگی میں  ہوئی، انور  کے دو بیٹے  چار بیٹیاں  ہیں،  اور غلام   قادرکےدو بیٹے پانچ  بیٹیاں حیات ہیں ، اور  منور حسین  کا انتقال اپنے    والد رب ڈنو   کی وفات کے بعد ہوا ،اس کی  اولاد  میں پانچ بیٹے  اور چار بیٹیاں ہیں  اور بیٹی   تاج بی بی  کا نتقال ابھی حال  ہی میں  ہوا،اولاد  میں  دو  بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ایک بیوی  کرم  سائیں  کاا نتقال اپنے شوہر  کی حیات میں 1995میں ہوا ،  اب بیٹا  محمد حسن  زندہ ہے ،اور  بیوہ کز بانو  حیات  ہے ،اس کی کوئی اولاد نہیں ہے ، اس تفصیل کے مطابق   ربڈنو  کی میراث کیسے تقسیم ہوگی  رہنمائی  فرمائیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ میراث اس مال  کو کہاجاتا  ہے جو مرنے والے کے انتقال   کے وقت اس کی ملک میں   موجود ہو ،پھر یہ مال  ان ورثاء کا  حق ہوتا ہے  جو مرنے والے کے  انتقال کے وقت زندہ ہوں ، لہذا صورت مسئولہ  میں  ربڈ کے مال میں   مرحومہ  بیوی  کرم سائیں ، اور مرحوم بیٹے   انور حسین اور غلام   قادر کا   کوئی حق نہیں  ہے ، اس لئے دونوں  کی اولاد کو ربڈنوںکی  میراث سے  کوئی حصہ نہیں  ملےگا، کز بانو، محمد حسن ،منور حسین اور تاج بی بی ہی ربڈنو مرحوم  کے شرعی ورثاء  ہیں ، ان ورثاء میں ترکے  کی تقسیم کا طریقہ   یہ ہے کہ والد مرحوم  ربڈنو  نےاپنے انتقال  کے وقت   منقولہ غیر  منقولہ جائداد ، سونا  چاندی  ، نقدی  اور چھوٹا  بڑا  جو بھی سامان اپنی ملک میں  چھوڑا  ہے   سب مرحوم   کا ترکہ ہے ، اس میں سے اولا   مرحوم کے کفن ودفن  کا متوسط خرچہ نکالا جائے ،بشرطیکہ  کسی  نے یہ خرچہ تبرعا  ادا نہ کیا  ہو ، اس کے بعد مرحوم کے ذمے کسی کا قرض  ہو  تو وہ  ادا کیاجائے ،اس کے بعد  اگر مرحوم  نے کسی  غیر وارث کے  حق میں کوئی جائز وصیت کی  ہو  توتہائی مال کی حد تک اس  پر  عمل کیاجائے ،اس کے بعد کل  مال کو مساوی 40 حصوں میں تقسیم کرکے   بیوہ  کز بانو  کو  5حصے ، دونوں لڑکے محمد حسن اور منور  حسین  کو  14 ،14حصے اور   بیٹی  تاج بی بی کو7 حصے  دئے جائیں گے ،پھر مرحومہ  تاج بی بی   اور مرحوم منور  حسین کو  ملنے والے   مال  ان کے  ورثاء    میں شرعی  قاعدے کے مطابق  تقسیم کیاجائے گا ، اور  جو بھتیجے  میراث  کے حقدار  نہیں ہیں  ،ان کوبھی  زندہ  ورثا  ء   اپنے  حصے  سے تبرعا   کچھ مال دیں تو  یہ ایک  مستحسن  بات  ہے ۔

حوالہ جات
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا } [النساء: 7، 8]

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲۴جمادی  الثانیہ  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے