021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی قوم کو طلاق دینے کا حکم (جديد)
82563طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

ایک خاندان کے دو بھائیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، چھوٹے بھائی کے پاس دو بیویاں تھیں اور وہ ان میں ایک بیوی کی دیکھ بھال نہیں کرتا تھا، اس وجہ سے بڑے بھائی نے ڈانٹ ڈپٹ کی، جس پر چھوٹے بھائی نے غصے میں کہا: ایک،دو، تین شرط سے مجھ پر شہلیس خیل(یہ اس کی بیوی کی قوم کا نام ہے) طلاق ہے، یہ الفاظ دو دفع ادا کيےاور یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد بہنوں کی ناراضگی پر   اس وقت پشیمان بھی ہوا ۔اب ان الفاظ کی وجہ سے  بیوی كوطلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو اس کا شرعی کوئی حل؟ کیونکہ اس کے اس فعل سے اب اس کی امی اس کو اور اسکی دوسری بیوی کو گھر پر نہیں چھوڑتی ہے، اوراگر بیوی کو گھر سے نکالا تو ان کی بہت سخت دشمنی ہوجائے گی، اس کی جان کو خطرہ ہوگا۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ ہمارے عرف میں ایک دو تین شرط سے تعددِ طلاق مراد ہوتاہے ، نیز یہ بھی بتایا کہ شہلیس خیل مکمل قوم کا نام ہے،شوہر نے بیوی کا نام نہیں لیا تھا، لیکن اس نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے، چنانچہ اس نے ان الفاظ سے طلاق دینے کے بعد لوگوں کے سامنے کہا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں شخصِ مذکور نے اپنی بیوی کی قوم کی طرف نسبت کرتے ہوئے طلاق دی ہے اورسوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق اس نےیہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے ہیں،نیزگفتگوکےسیاق وسباق اور غصے کی حالت کے قرینہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شہریامحلہ کی  عورتوں (جن میں ایک اس کی بیوی بھی ہو) کی طرف نسبت کرتے ہوئے سب کو طلاق دے تو نیت کے پائے جانے کی صورت میں اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی،[1] کیونکہ وہ بیوی ہونے کی وجہ سے طلاق کا محل تھی، البتہ اس کے علاوہ دیگر عورتوں میں سے کسی عورت کو طلاق نہیں ہو گی، کیونکہ اجنبی عورت طلاق کا محل نہیں ہوتی۔ نیز اکابر کے فتاوی سے بھی یہی حکم معلوم ہوتا ہے، چنانچہ خیرالفتاوی (218/5،ط:مكتبہ امدادیہ، ملتان) میں بیوی کےخاندان کو طلاق دینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے:

صورتِ مسئولہ میں برتقدیرِ صحتِ واقعہ تین طلاقیں واقع ہو گئیں، بدوں حلالہ نکاحِ جدید بھی نہیں کر سکتا، خاندان کو طلاق دینا کافی ہے، صراحتاً اضافت الی المرأة ضروری نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا غصے کی حالت میں اپنی بیوی کی قوم (جس میں اس کی بیوی بھی شامل ہے،اس لیے بیوی کی طرف من وجہ نسبت پائی گئی) کے بارے میں  یہ کہنا کہ"ایک،دو، تین شرط سے مجھ پر شہلیس خیل طلاق ہے" سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب اسی حالت میں اس عورت سے رجوع یا دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا، البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ شخص اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات (ہمبستری)بھی قائم کرے، پھر وہ وفات پا جائے یا اس کو طلاق دیدے تو اس کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔

[1] فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے اس مسئلہ کی تین صورتیں معلوم ہوتی ہیں:

پہلی صورت: اگر شوہرنےعالم یا دنیا کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عالم کی عورتوں یا دنیا کی عورتوں کو طلاق دی تو بالاتفاق طلاق نہیں ہو گی۔

دوسری صورت: اگر گلی، گھر، کمرہ یا مسجد کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس گھر یا کمرہ میں موجود عورتوں کو طلاق دی تواس صورت میں بالاتفاق اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی، چھوٹی بستی کا بھی یہی حکم ہے۔

تيسری صورت: اگر شوہرنے کسی شہر کی عورتوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے طلاق دی تو اس میں اختلاف ہے، امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک واقع نہیں ہو گی، جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک واقع ہو جائے گی اور یہ اختلاف درحقیقت اس بات پر مبنی ہے کہ شہرکودنیا پر قیاس کیا جائے گا یا بستی پر، تو امام ابویوسف رحمہ اللہ نے زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے دنیاپر قیاس کیا اور عدمِ وقوع طلاق کا حکم لگایا، جبکہ امام محمد رحمہ اللہ نے اس کوبستی پر قیاس کیا اوروقوعِ طلاق کا حکم لگایا، اس میں فتوی امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔

    مذکورہ بالا تفصیل طلاق کی نیت کے بغیر یہ الفاظ کہنے کی صورت میں ہے، لیکن اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تو اس صورت میں عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں بالاتفاق طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ لفظ ِعام میں خاص بھی شامل ہوتا ہے، لہذا نساء الدنیا وغیرہ عام لفظ بول کر خاص (اپنی بیوی کی طلاق) پر حکم کا قصد کرنا اصولِ فقہ کی رُو سے درست ہے، نیز یہی حکم خاندان، قبیلہ، اور کسی ملک کی عورتوں کو طلاق دینے کی صورت میں ہو گا۔

اہم تنبیہ :

فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے اس مسئلہ کی تین صورتیں معلوم ہوتی ہیں:

پہلی صورت: اگر شوہرنےعالم یا دنیا کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عالم کی عورتوں یا دنیا کی عورتوں کو طلاق دی تو بالاتفاق طلاق نہیں ہو گی۔

دوسری صورت: اگر گلی، گھر، کمرہ یا مسجد کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس گھر یا کمرہ میں موجود عورتوں کو طلاق دی تواس صورت میں بالاتفاق اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی، چھوٹی بستی کا بھی یہی حکم ہے۔

تيسری صورت: اگر شوہرنے کسی شہر کی عورتوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے طلاق دی تو اس میں اختلاف ہے، امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک واقع نہیں ہو گی، جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک واقع ہو جائے گی اور یہ اختلاف درحقیقت اس بات پر مبنی ہے کہ شہرکودنیا پر قیاس کیا جائے گا یا بستی پر، تو امام ابویوسف رحمہ اللہ نے زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے دنیاپر قیاس کیا اور عدمِ وقوع طلاق کا حکم لگایا، جبکہ امام محمد رحمہ اللہ نے اس کوبستی پر قیاس کیا اوروقوعِ طلاق کا حکم لگایا، اس میں فتوی امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔

    مذکورہ بالا تفصیل طلاق کی نیت کے بغیر یہ الفاظ کہنے کی صورت میں ہے، لیکن اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تو اس صورت میں عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں بالاتفاق طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ لفظ ِعام میں خاص بھی شامل ہوتا ہے، لہذا نساء الدنیا وغیرہ عام لفظ بول کر خاص (اپنی بیوی کی طلاق) پر حکم کا قصد کرنا اصولِ فقہ کی رُو سے درست ہے، نیز یہی حکم خاندان، قبیلہ، اور کسی ملک کی عورتوں کو طلاق دینے کی صورت میں ہو گا۔

حوالہ جات
فتاوى قاضيخان (1/ 406) مكتبه رشيدية، كوئٹة:
رجل قال نساء العالم أو نساء الدنيا طوالق لا تطلق امرأته ولو قال نساء هذه البلدة أو هذه القرية طوالق وفيها امرأته طلقت وعن أبي بوسف رحمه الله تعالى لو قال نساء بغداد طوالق وفيها امرأته لا تطلق وعن محمد رحمه الله تعالى تطلق.
الفتاوى البزازية (1/153)قديمي كتب خانةآرام باغ كراتشي:
نساء أهل الدنيا أو أهل القرى طالق لا يقع على امراته بلا نية وكذا قوله جميع نساء الدنيا في الأصح وفي باب علامة السين في فتاوى سمرقند تطلق ولا يصدق حكما ذكر الجميع أم لا.ولو قال نساء أهل هذه المحلة وهو من أهلها أو نساء أهل هذه الدار طلقت امرأته وكذا نساء هذا البيت إن كان فيه وفي نساء أهل هذه القرية اختلفوا قيل هو كالمحلة وقيل هو كالمصر.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 294) دار الفكر-بيروت:
(قوله قال نساء الدنيا إلخ) في الأشباه على عتق الخانية: رجل قال عبيد أهل بغداد أحرار ولم ينو عبده وهو من أهلها، أو قال كل عبيد أهل بغداد أو كل عبد في الأرض أو في الدنيا قال أبو يوسف لا يعتق عبده. وقال محمد: يعتق، وعلى هذا الخلاف الطلاق والفتوى على قول أبي يوسف؛ ولو قال: كل عبد في هذه السكة أو في المسجد الجامع حر فهو على هذا الخلاف؛ ولو قال: كل عبد في هذه الدار وعبيده فيها عتقوا في قولهم، لا لو قال ولد آدم كلهم أحرار في قولهم اھ وهو صريح في جريان الخلاف في المحلة كالبلدة لأنها بمعنى السكة، لكن ذكر في الذخيرة أولا الخلاف في نساء أهل بغداد طالق فعند أبي يوسف ورواية عن محمد لا تطلق إلا أن ينويها لأن هذا أمر عام وعن محمد أيضا تطلق بلا نية، ثم نقل عن فتاوى سمرقند أن في القرية اختلاف المشايخ، منهم من ألحقها بالبيت والسكة، ومنهم من ألحقها بالمصر اهـ ومقتضاه عدم الخلاف في السكة، ثم علل عدم الوقوع في المصر وأهل الدنيا، بأنه لو وقع به لكان إنشاء في حقه فيكون إنشاء أيضا في حقهم، وهو متوقف على إجازتهم وهي متعذرة.
الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 39) دار الكتب العلمية، بيروت:
رجل قال: عبيد أهل بلخ أحرار، وقال: عبيد أهل بغداد أحرار ولم ينو عبده، وهو من أهل بغداد، وقال: كل عبيد أهل بلخ، أو قال: كل عبيد أهل بغداد أحرار، أو قال: كل عبد في الأرض، أو قال: كل عبد في الدنيا، قال أبو يوسف رحمه الله: لا يعتق عبده، وقال محمد رحمه الله: يعتق، وعلى هذا الخلاف في الطلاق، وبقول أبي يوسف رحمه الله أخذ عصام بن يوسف، وبقول محمد أخذ شداد، والفتوى على قول أبي يوسف رحمه الله.
ولو قال: كل عبد في هذه السكة وعبده في السكة، أو قال: كل عبد في المسجد الجامع حر، وهو فيه فهو على هذا الخلاف،ولو قال: كل عبد في هذه الدار حر وعبيده فيها يعتق عبيده في قولهم جميعا، ولو قال: ولد آدم كلهم أحرار لا يعتق عبيده في قولهم (انتهى).
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 272) دار الكتاب الإسلامي:
ولو قال اكتب لها طلاقها فينبغي أن يقع الطلاق للحال كما لو قال احمل إليها طلاقها أو اكتب إلى امرأتي أنها طالق كذا في الخانية وليس منه نساء العالم أو الدنيا طوالق فلا تطلق امرأته بخلاف نساء هذه البلدة أو هذه القرية طوالق، وفيها امرأته طلقت.
عن أبي يوسف لو قال نساء بغداد طوالق، وفيها امرأته لا تطلق، وقال محمد تطلق كذا في الخانية وجزم بالوقوع في البزازية في نساء المحلة، والدار، والبيت وجعل الخلاف إنما هو في نساء القرية .

  محمد نعمان خالد

  دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

 2/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے