021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلوت صحیحہ کی تعیین اور تین طلاق
82533طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میرا نکاح ستمبر2020 میں ہوا ،صرف نکاح ہوا ، رخصتی نہیں ہوئی ،اگلے دن میری ساس مجھے اپنے ساتھ لے گئیں کہ لڑکی کو ہم اپنے کچھ رشتہ داروں سے ملوانا چاہتے ہیں،پہلے وہ کراچی میں  اپنی بہن سے ملوانے لے گئیں ،وہاں سے مجھے اپنے ساتھ جہاں وہ رہائش پزیر تھیں، وہاں لے گئیں ،رات کو میں ،میراشوہر،میری ساس ایک ہی بستر پر سوئے ،جس کے نتیجے میں ہمارے درمیان بوس وکنار ہوگیا،لیکن کوئی جنسی تعلق نہیں بنا،میں اس وقت حائضہ تھی،دوسرےدن صبح  ہم تمام لوگ حیدرآباد چلے گئے ،وہاں بھی میں حائضہ تھی،کمرے میں ہم دونوں تھے، لیکن کمرہ  لاک نہیں تھا،اک دودفعہ  کمرے میں میرے جیٹھ بھی بے دہانی میں آگئے،وہاں بھی سب کمرے میں ساتھ سوتے تھے اور ہم بوس وکنار کر لیاکرتے تھے،وہاں بھی ہمبستری والا کوئی معاملہ نہیں تھا اور میں حائضہ رہی اور ہم کراچی آگئے۔جس دن کراچی آئے، اس دن یا اس کے اگلے دن میں نے غسل کرلیاتھا۔اس دن میری جیٹھانی نے ہمیں کمرے میں تنہا چھوڑدیاکہ تم دونوں آپس میں باتیں کرلو،میں بچوں کو آنے سے روک  دیتی ہوں  یا اس نے روک دیا،دروازہ بند تھا،میرے خیال سے لاک نہیں تھا،اس مقام پر ہم لوگ ہم بستری نہیں کرسکتے تھے،کیونکہ ہو نہیں سکتی تھی،کسی کے آنے کا بھی ڈر تھا اور مکمل طور پر ہم دونوں تیار بھی نہیں تھے،کیونکہ اگر کوئی آجاتا تو کیا ہوتا؟ یہ تمام باتیں مجھے یاد آرہی ہیں،پھر کئی راتیں ہماری ایسی ہی گزریں کہ ہمارا بوس وکنار ہوا،انہوں نے اپنی انگلی سے میرے اندردخول بھی کیا، لیکن جنسی تعلق نہیں بنا،ایک رات میری ساس ،شوہر اورمیں بیڈپر لیٹے ہوئے تھے اور باقی رشتہ دار زمین پرسورہے تھے،ہم دونوں بوس وکنار میں مصروف تھے ،لیکن جنسی تعلق نہیں بن سکتا،میں نے اپنے شوہر سے کہاکہ ٹرائی کرکے دیکھو،کیا پتہ اس طرح ہم جنسی تعلق بناسکیں ،لیکن وہ ایک بار پانی کی بوتل اٹھانے کے بہانے میرے قریب یعنی میرے اوپر آئے ،لیکن دخول ممکن نہیں ہوا،پھر تھک ہار کر ہم جوکرسکتے تھےیعنی بوس وکنار کرنا،میری چھاتی  کو اپنے منہ میں لینا،جسم کی شرمگاہ میں انگلی سے دخول کرنا،وہ ضرور ہوا۔

مسئلہ:

میری ،اپنے شوہر سے  لڑائی ہوئی،میں نے کہا کہ مجھے تین لفظ بول دو،مجھے یقین تھا کہ یہ نہیں بولیں گے،کیونکہ 

اس سے پہلے ایک دفعہ بھی ایسا ہواتھا تو انہوں نے مجھے تین لفظوں کے جواب میں “I Love You”کہہ دیا تھا،اس دفعہ بھی توقع تھی کہ یہ یا تو معافی مانگ لیں گے،یا “I Love You” بول دیں گے،لیکن انہوں نے کہا:"طلاق،طلاق،طلاق" پھر میں نے کہاکہ یہ کیاکہہ دیا؟واضح رہے کہ یہ الفاظ کہنے سے پہلے میرے شوہر نے مجھے سے پوچھا تھاکہ کیا تم واقعی چاہتی ہوتو میں نے کہا:"ہاں"،پھر انہوں نے یہ تین لفظ بولے ،بعد میں کہا کہ تم نے زبردستی کہلوائے ہیں،میں نہیں دینا چاہتا تھا،اب ان تمام معاملات کی رو سے کیا خلوت صحیحہ ہوگئی؟میرے شوہر جب سے گئے ،واپس پلٹ کر پاکستان ابھی نہیں آئے،ہمار آنلائن رابطہ ہے،اور یہ تمام باتیں بھی آنلائن ہی ہوئیں،طلاق اکٹھی نہیں دی تھیں۔

نوٹ:جیٹھانی نے کمرہ بند کیا تھا،لاک نہیں تھا،وہ سامنے کمروں یا صحن میں چلی گئی تھی،وہاں سے نگرانی کا ارادہ تھا،کمرے کے پاس کھڑی نہیں تھی،اتنی بات یاد ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

" سوال میں جوصورتحال لکھی گئی ہے اگر وہ حقیقت کے مطابق ہے تو پھر اس کا حکم یہ ہے کہ یہاں میاں بیوی کا تعلق قائم نہیں ہوا ہے اور نہ  خلوت صحیحہ  پائی گئی ہے۔

میاں بیوی کےتعلق کامعیار یہ ہے کہ شوہر کے عضو مخصوص کا اگلا حصہ (سپاری)  بیوی کی شرمگاہ  میں داخل ہو جائے ۔یہ صورت یہاں نہیں پائی گئی ہے۔اوراس معاملے میں شریعت نے "دواعی جماع"(بوس وکنار وغیرہ) کو جماع کے قائمقام نہیں بنایا گیا ہے۔

خلوت صحیحہ" سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی  ایسی جگہ میں تنہا جمع ہو جائیں، جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو، پھر بھی خلوت صحیحہ ثابت ہو جاتی ہے۔

صورت مسئولہ میں دروازہ تو بند تھا،مگر لاک نہیں تھا،اور اس کے پاس کوئی روکنے والا موجود نہیں تھا کہ بروقت کسی آنے والے کو روک سکے،اس لیے ان کو یہ خدشہ تھا کہ کوئی کمرہ میں اندر آجائے گا۔اسی طرح کمرے میں دیگر حضرات موجود ہونے سے بھی خلوت صحیحہ نہیں پائی گئی ہے ،اگرچہ وہ سوئے ہوئے ہوں۔

لہذا اس تمام تر صورتحال میں شوہر نے جو طلاقیں دی ہیں،ان میں سے پہلی طلاق واقع ہوکر بیوی بائنہ ہوچکی

ہے،دوبارہ دونوں کی رضامندی سے  نیا نکاح ،نئے مہر کے ساتھ کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات
وفی الدرالمختار ( 3/114):
( والخلوة ) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء ( بلا مانع حسي ) كمرض لأحدهما يمنع الوطء ( وطبعي ) كوجود ثالث عاقل ۔۔۔  ( ولو ) كان الزوج ( مجبوبا أو عنينا أو خصيا ) ۔۔۔ ( في ثبوت النسب ) ولو من المجبوب ( و ) في ( تأكد المهر ) المسمى  ( و ) مهر المثل بلا تسمية و ( النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها ) في عدتها( وحرمة نكاح الأمة ومراعاة وقت الطلاق في حقها )وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار ۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (3/ 162):
وقد شرط المصنف في إقامتها مقام الوطء شروطا ترجع إلى أربعة أشياء الخلوة الحقيقية وعدم مانع حسي وعدم مانع طبعي وعدم مانع شرعي من الوطء.
 فالأول للاحتراز عما إذا كان هناثالث فليست بخلوة ،سواء كان ذلك الثالث بصيرا أو أعمى أو يقظانا أو نائما بالغا أو صبيا يعقل وفصل في المبتغى في الأعمى فإن لم يقف على حاله تصح وإن كان أصم إن كان نهارا لا تصح وإن كان ليلا تصح اهـ
وللاحتراز عن مكان لا يصلح للخلوة والصالح لها أن يأمنا فيه اطلاع غيرهما عليهما كالدار والبيت ولو لم يكن له سقف، وكذا الخيمة في المفازة والمحل الذي عليه قبة مضروبةوكذا البستان الذي له باب وأغلق فلا تصح في المسجد والطريق الأعظم والحمام وسطح الدار من غير ساتر والبستان الذي ليس له باب وإن لم يكن هناك أحد واختلف في البيت إذا كان بابه مفتوحا أو طوابقه بحيث لو نظر إنسان رآهما ففي مجموع النوازل إن كان لا يدخل عليهما أحد إلا بإذن فهي خلوة واختار في الذخيرة أنه مانع وهو الظاهر۔
الفتاوى الهندية (1/ 305):
والمكان الذي تصح فيه الخلوة أن يكونا آمنين من اطلاع الغير عليهما بغير إذنهما كالدار والبيت كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان ولا تصح الخلوة في الصحراء ليس بقربهما أحد إذا لم يأمنا مرور إنسان وكذا لو خلا على سطح ليس على جوانبه ستر أو كان الستر رقيقا أو قصيرا بحيث لو قام إنسان يقع بصره عليهما لا تصح الخلوة إذا خافا هجوم الغير فإن أمنا صحت الخلوة، كذا في الظهيرية ولو خلا بها في الطريق إن كانت جادة لا تصح، وإن لم تكن صحت هكذا في السراج الوهاج ولا تصح الخلوة في المسجد والحمام فإن حملها إلى الرستاق إلى فرسخ أو فرسخين وعدل بها عن الطريق كان خلوة في الظاهر.
وفي البيوتات الثلاثة أو الأربعة واحد بعد واحد إذا خلا بامرأته في البيت القصوى إن كانت الأبواب مفتوحة من أراد أن يدخل عليهما من غير استئذان لا تصح الخلوة وكذا لو خلا بها في بيت من دار وللبيت باب مفتوح في الدار إذا أراد أن يدخل عليهما غيرهما من المحارم أو الأجانب يدخل؛ لا تصح الخلوة، كذا في فتاوى قاضي خان
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح(فصل مايجب فيه الاغتسال ،ص: 43):
"و" منها "توارى حشفة" هي رأس ذكر آدمي مشتهى حي احترز به عن ذكر البهائم والميت والمقطوع والمصنوع من جلد  والأصبع وذكر صبي لايشتهي والبالغة يوجب عليها بتواري حشفة المراهق الغسل".
الفتاوي الهندية: (304/1):
"وَالْخَلْوَةُ الصَّحِيحَةُ أَنْ يَجْتَمِعَا فِي مَكَان لَيْسَ هُنَاكَ مَانِعٌ يَمْنَعُهُ مِنْ الْوَطْءِ حِسًّا أَوْ شَرْعًا أَوْ طَبْعًا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ".

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

02/رجب1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے