021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تفویضِ طلاق کے بعد اس کے عام یا مجلس کے ساتھ خاص ہونے میں اختلاف
82538طلاق کے احکامکسی کو طلاق واقع کرنے کا حق دینے کا بیان

سوال

ہماری شادی کو چھ سال ہو رہے ہیں، میرے شوہر کی پہلے بھی ایک شادی نو سال رہ چکی ہے، انہوں نے اپنی پچھلی بیوی کو شادی کے دو ڈھائی سال بعد پہلی، تقریباً چھٹے سال دوسری، اور نویں سال تیسری طلاق دی تھی۔ اس کے چھ سات ماہ بعد مجھ سے ان کی شادی ہوئی۔  ہماری شادی کو بھی چھ سال ہو رہے ہیں، اور اس عرصہ میں یہ مجھے بھی دو طلاقیں دے چکے ہیں، دو سال قبل ہماراتجدیدِ نکاح ہوا تھا۔

اب سے دو تین ماہ قبل میں نے ان سے کہا مجھے آپ کا بالکل اعتبار نہیں، نا جانے کب تیسرا اور آخری اختیار بھی استعمال کرلیں، یہ اختیار مجھے دیدیں، میں ان شاءاللہ اسے کبھی استعمال نہیں کروں گی۔ یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ اس کے باوجود بھی شوہر کے پاس حق موجود رہتا ہے۔ بہرحال میں وقتا فوقتاً اصرار کرتی رہی، وہ انکار کرتے رہے، کچھ دن ایسا ہی چلتا رہا، ایک دن میں نے انہیں کہا مجھے اختیار دے کیوں نہیں دیتے؟  ابھی دیں ،  انہوں نے کہا " جا، دیدیا "۔ واضح رہے کہ اس مجلس میں میرے منہ سے یہ الفاظ، کہ میں یہ اختیار کبھی استعمال نہیں کرونگی، ادا نہیں ہوئے تھے، مگر پچھلے دنوں کئی بار یہ الفاظ کہہ چکی تھی اور مانگتے وقت بھی یہی نیت تھی۔

اس کے بعد ایک دن انکی طرف سے بہت دل برداشتہ کردینے والا معاملہ ہوا، جس پر میں نے وہ اختیار استعمال کرتے ہوئے اپنے اوپر طلاق واقع کردی، میں نے کہا " میں آپ کے دیے ہوئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مکمل ہوش و حواس میں خود کو طلاق دیتی ہوں، آج کے بعد میں آپ کی بیوی نہیں ہوں" ۔ یہ جملے بار بار کہے تھے۔    

اب وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اختیار اس لیے نہیں مانگا تھا کہ کسی بھی وقت اپنے اوپر طلاق واقع کرسکو، بلکہ کہا تھا کہ مجھے اختیار دیدیں، میں ابھی استعمال کرتی ہوں، میں نے غصہ میں کہہ دیا کہ جا، دیدیا۔ میرا موقف یہ ہے کہ میں نے اس سے مطلق اختیار لیا تھا، اس وقت میں اختیار اس لیے نہیں مانگ رہی تھی کہ اسی مجلس میں طلاق واقع کروں، بلکہ اس لیے مانگ رہی تھی کہ کہیں یہ مجھے طلاق نہ دیدے۔ میرے شوہر کو پہلے اس بات کا علم نہیں تھا کہ اختیار مجلس کے ساتھ خاص ہوتا ہے یا نہیں، بعد میں کسی دار الافتاء سے مسئلہ پوچھنے کے بعد سے یہ بات کر رہے ہیں۔ میرے شوہر یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ اختیار اس لیے مانگ رہی تھیں کہ میں کہیں تیسری طلاق نہ دیدوں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین تھا کہ آپ اپنے اوپر یہ طلاق واقع نہیں کریں گی۔ وہ کبھی ایک بات کرتے ہیں، کبھی دوسری۔

 سوال یہ ہے کہ اس صورت میں مجھے طلاق کا مطلق اختیار مل گیا تھا یا نہیں؟ اور میں نے اپنے اوپر جو طلاق واقع کی ہے وہ واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے، لیکن نہ تو اس کے استعمال کے لیے کسی خاص وقت کی تعیین کرے اور نہ ہی عام اختیار دے کہ بیوی جب چاہے اپنے اوپر طلاق واقع کرسکے تو یہ اختیار مجلس کے ساتھ خاص ہوگا۔ اگر کسی خاص وقت کے لیے اختیار دے گا تو وہ اختیار اسی وقت تک رہے گا اور اگر عام اختیار دے گا تو پھر بیوی کسی بھی وقت اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کی مجاز ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں شوہر کے کلام "جا، دیدیا" میں بیوی کو طلاق کا عمومی اختیار دینے پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ یا جملہ نہیں، جس کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اختیار اسی مجلس کے ساتھ خاص ہو۔

 لیکن سوال میں ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں اگر اختیار مانگنے کے مقصد اور اس گفتگو کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو اس کے مطابق یہ اختیار آئندہ زمانے کے لیے مانگا جا رہا تھا، اس مجلس میں اختیار استعمال کرنا مقصود ہی نہیں تھا، اس لیے شوہر کی بات "جا، دیدیا" میں بیوی کو جو اختیار دیا گیا وہ مجلس کے ساتھ خاص نہیں ہونا چاہیے، گویا شوہر نے بیوی سے کہا کہ میں نے آپ کو اختیار دیدیا ہے، آپ جب چاہے اپنے اوپر طلاق واقع کرسکتی ہیں۔ لہٰذا بعد میں جب آپ نے یہ اختیار استعمال کرتے ہوئے اپنے اوپر طلاق واقع کردی تو وہ طلاق واقع ہونی چاہیے اور مجموعی طور پر تین طلاقیں پوری ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہونی چاہیے، جس کے بعد نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی دوبارہ نکاح۔ اس کی ایک نظیر نکاح فارم میں تفویضِ طلاق کی شق ہے، اس میں بھی عمومِ زمان پر دلالت کرنے والے الفاظ کے بغیر طلاق تفویض کی جاتی ہے، لیکن مقصد، عرف اور زبان و محاورے کے پیشِ نظر اس کو مجلس کے ساتھ خاص نہیں مانا جاتا۔   

تاہم دوسری طرف اگر اس پہلو کو دیکھا جائے کہ شوہر اختیار نہیں دینا چاہ رہا تھا، اسی لیے وہ بار بار انکار کرتا رہا، آخری مرتبہ اس نے تنگ آکر صرف اتنا کہا کہ "جا، دیدیا" اور اب وہ کہہ رہا ہے کہ میری نیت عام اختیار دینے کی نہیں تھی تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے اس اختیار کو مجلس کے ساتھ خاص مانا جائے؛ کیونکہ وہ اختیار دینا ہی نہیں چاہ رہا تھا، لہٰذا اگر اس نے تنگ آکر اختیار دیا ہے اور اس میں عموم کے الفاظ استعمال نہیں کیے تو اس کو کم سے کم درجے میں ثابت ماننا چاہیے، یہی عربی عبارات کا تقاضا ہے۔ جہاں تک نکاح نامہ کی مطلق تفویض کو عام ماننے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں شوہر واضح طور پر رضامندی کے ساتھ مستقبل میں ضرورت کے وقت کے لیے طلاق کی تفویض کر رہا ہوتا ہے اور عرف میں بھی اس کو مستقبل کے لیے عام مانا جاتا ہے، اس مجلس کے ساتھ خاص نہیں سمجھا جاتا؛ اس لیے وہاں عموم پر دلالت کرنے والے الفاظ کے بغیر مطلق تفویض کو بھی عام مانا جاتا ہے۔     

خلاصہ یہ کہ صورتِ مسئولہ میں شوہر کی بات کا اعتبار ہوگا، البتہ یک گونہ متہم ہونے کی وجہ سے اس سے قسم لی جائے گی، اگر وہ اس بات پر قسم اٹھالے کہ میری مراد اسی مجلس میں اختیار دینے کی تھی، عام اختیار دینا مقصد نہیں تھا تو پھر اس مجلس کے بعد آپ نے اپنے اوپر جو طلاق واقع کی ہے وہ واقع نہیں ہوئی اور آپ دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے۔ تاہم اگر وہ جھوٹی قسم کھائے گا تو اس کا دنیوی و اخروی وبال اسی پر ہوگا۔  

حوالہ جات
الهداية (1/ 247-243):
فصل في الاختيار:  وإذا قال لامرأته اختاري ينوي بذلك الطلاق أو قال لها طلقي نفسك فلها أن تطلق نفسها ما دامت في مجلسها ذلك فإن قامت منه أو أخذت في عمل آخر خرج الأمر من يدها؛ لأن المخيرة لها المجلس بإجماع الصحابة رضي الله عنهم أجمعين ولأنه تمليك الفعل منها والتمليكات تقتضي جوابا في المجلس كما في البيع؛ لأن ساعات المجلس اعتبرت ساعة واحدة…… الخ
فصل في المشيئة ……ولو قال لها طلقي نفسك فليس له أن يرجع عنه؛ لأن فيه معنى اليمين لأنه تعليق الطلاق بتطليقها واليمين تصرف لازم ولو قامت عن مجلسها بطل لأنه تمليك…. …….. ولو قال لها أنت طالق إذا شئت أو إذا ما شئت أو متى شئت أو متى ما شئت فردت الأمر لم يكن ردا ولا يقتصر على المجلس، أما كلمة متى ومتى ما فلأنهما للوقت وهي عامة في الأوقات كلها كأنه قال في أي وقت شئت فلا يقتصر على المجلس بالإجماع، ولو ردت الأمر لم يكن ردا لأنه ملكها الطلاق في الوقت الذي شاءت فلم يكن تمليكا قبل المشيئة حتى يرتد بالرد ولا تطلق نفسها إلا واحدة؛ لأنها تعم الأزمان دون الأفعال، فتملك التطليق في كل زمان ولا تملك تطليقا بعد تطليق، وأما كلمة إذا وإذا ما فهما ومتى سواء عندهما، وعند أبي حنيفة رحمة الله تعالى عليه وإن كان يستعمل للشرط كما يستعمل للوقت، لكن الأمر صار بيدها فلا يخرج بالشك، وقد مر من قبل.
بدائع الصنائع (3/ 113):
وأما بيان شرط بقاء هذا الحكم وما يبطل به وما لا يبطل فلن يمكن معرفته إلا بعد معرفة أقسام الأمر باليد، فنقول وبالله التوفيق: جعل الأمر باليد لا يخلو إما أن يكون منجزا، وإما أن يكون معلقا بشرط، وإما أن يكون مضافا إلى وقت، والمنجز لا يخلو إما أن يكون مطلقا وإما أن يكون مؤقتا، فإن كان مطلقا بأن قال أمرك بيدك فشرط بقاء حكمه بقاء المجلس وهو مجلس علمها بالتفويض فما دامت في مجلسها فالأمر بيدها؛ لأن جعل الأمر بيدها تمليك الطلاق منها؛ لأنه جعل أمرها في الطلاق بيدها تتصرف فيه برأيها وتدبيرها كيف شاءت بمشيئة الإيثار وهذا معنى المالكية وهو التصرف عن مشيئة الإيثار والزوج يملك التطليق بنفسه فيملك تمليكه من غيره فصارت مالكة للطلاق بتمليك الزوج وجواب التمليك مقيد بالمجلس لأن الزوج يملك الخطاب وكل مخلوق خاطب غيره يطلب جواب خطابه في المجلس فيتقيد جواب التمليك بالمجلس كما في قبول البيع وغيره، وسواء قصر المجلس أو طال لأن ساعات المجلس جعلت كساعة واحدة لأن اعتبار المجلس للحاجة إلى التأمل والتفكر وذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال والأوقات ولا ضابط له إلا المجلس فقدر بالمجلس ولهذا جعله الصحابة رضي الله عنهم للمخيرة فيبقي الأمر في يدها ما بقي المجلس فإن قامت عن مجلسها بطل لأن الزوج يطلب جواب التمليك في المجلس والقيام عن المجلس دليل الإعراض عن جواب التمليك فكان ردا للتمليك دلالة ولأن المالك لما طلب الجواب في المجلس لا يملك الجواب في غير المجلس؛ لأنه ما ملكها في غيره وقد اختلف المجلس بالقيام فلم يكن في بقاء الأمر فائدة فيبطل…….. الخ
الدر المختار (3/ 315):
 وألفاظ التفويض ثلاثة تخيير وأمر بيد ومشيئة.  ( قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي ) تفويض ( الطلاق ) لأنها كناية فلا يعملان بلا نية ( أو طلقي نفسك فلها أن تطلق في مجلس علمها به ) مشافهة أو إخبارا ( وإن طال ) يوما أو أكثر ما لم يوقته ويمضي الوقت قبل علمها ( ما لم تقم ) لتبدل مجلسها حقيقة ( أو ) حكما بأن ( تعمل ما يقطعه ) مما يدل على الإعراض لأنه تمليك فيتوقف على قبولها في المجلس لا توكيل فلم يصح رجوعه حتى لو خيرها ثم حلف أن لا يطلقها فطلقت لم يحنث في الأصح ( لا ) تطلق ( بعده ) أي المجلس ( إلا إذا زاد ) على قوله طلقي نفسك وأخواته ( متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت ) فلا يتقيد بالمجلس ( ولم يصح رجوعه ) لما مر.
رد المحتار (3/ 315):
قوله ( فلا يعملان بلا نية ) أي قضاء وديانة في حالة الرضا، أما في حالة الغضب أو المذاكرة فلا يصدق قضاء في أنه لم ينو الطلاق لأنهما مما تمحض للجواب كما مر ولا يسعها المقام معه إلا بنكاح مستقبلي؛ لأنها كالقاضي ، أفاده في الفتح والبحر.  ثم اعلم أن اشتراط النية إنما هو فيما إذا لم يذكر النفس أو ما يقوم مقامها في كلامه وإنما ذكرت في كلامها فقط كما يأتي تحريره فتنبه لذلك، فإني لم أر من نبه عليه.
الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة(25):
تفویضِ طلاق بوقتِ نکاح از فقہ حنفی۔۔۔۔۔۔۔ ایسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جن سے نہ تو ایسی تنگی لازم آئے کہ تفویض مقید بالمجلس ہوجائے اور نہ اتنی وسعت ہو کہ عورت کو تینوں طلاقیں واقع کرنے کا اختیار مل جائے؛ اسی لیے ہم نے کابین ناموں میں اور گزشتہ مثالوں میں ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو باتفاقِ محاورات فریقین کی رعایت اور مصلحت پر مشتمل ہیں اور ان الفاظ سے صرف ایک ہی مرتبہ طلاق دینے کا اختیار حاصل ہوگا، مگر وجودِ شرط کی مجلس کے ساتھ مقید نہ ہوگا۔ اور اردو کے محاورات مختلف ہونے کی وجہ سے تمام الفاظِ شرط کا حکم منضبط نہ ہوسکا، اس واسطے الفاظِ عربیہ کی تفصیل نقل کرتے ہیں؛ تاکہ اہلِ علم بوقتِ ضرورت اس تفصیل میں اور متکلم کے محاورہ میں بغور تطابق کر کے بقیہ الفاظِ شرط کا حکم متعین کرسکیں۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     02/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے