021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روایت”دعا تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے ضرور قبول ہوتی ہے” کی تحقیق
82562سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

فضائل اعمال میں حضرت شیخ محمد زکریا رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو وہ تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے ضروری قبول ہوتی ہےیا تو وہی چیز دے دی جاتی ہے یا اس کے بدلے میں اس سے کوئی برائی ٹال دی جاتی ہے یا اس کو آخرت میں ذخیرہ کر لیا جاتا ہے،  کیا یہ حدیث ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو اس کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی حدیث مختلف طرق سے مروی ہے، ان میں سے ایک طریق کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

مسند أحمد  (17/ 213، الرقم:11133)مؤسسة الرسالة، بيروت:

حدثنا أبو عامر، حدثنا علي، عن أبي المتوكل، عن أبي سعيد أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها إثم، ولا قطيعة رحم، إلا أعطاه الله بها إحدى ثلاث: إما أن تعجل له دعوته، وإما أن  يدّخرها له في الآخرة، وإما أن يصرف عنه من السوء مثلها " قالوا: إذا نكثر، قال: «الله أكثر»

اس روایت کاترجمہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب بھی کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ تین چیزوں میں سےکوئی ایک چیز عطا کردیتا ہے: یا اس کو فورا وہی چیز دے دی جاتی ہے جو اس نے مانگی یا اللہ تعالیٰ اس کو بندے کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر لیتے ہیں اور یا یہ کہ اس دعا کے عوض اس کے برابر کوئی مصیبت اس سے ٹال دی جاتی ہے (ترمذی کی روایت میں تیسری چیز یہ مذکور ہے کہ یا اس دعا کے برابر اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں) لوگوں نے عرض کیا کہ پھر تو ہم اللہ سے بکثرت دعا مانگیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والے ہیں۔

مذکورہ بالا روایت کے بارے میں کسی امام کی طرف سے صریح حکم نہیں ملا، اس کے ایک طریق کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے، مگر انہوں نے صحت وضعف کے حکم کی صراحت کیے بغیر صرف غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اس لیے اس روایت کی اسنادی حیثیت جاننے کے لیے اس کی سند کا اصولِ حدیث کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے، جس کو دراسہٴ سند کہا جاتا ہے، اور کسی بھی سندکے دراسہ کے لیے حدیثِ صحیح کی پانچ شرائط کی تحقیق ضروری ہے:

پہلی شرط: پہلی شرط کا تعلق رواة کی عدالت کے ساتھ ہے، یعنی راوی عادل ہو، عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری اعمال جیسے نماز اور روزے وغیرہ کا اہتمام اور باطنی اعمال یعنی معاملات  جیسےخریدفروخت، کرایہ داری اور شرکت وغیرہ میں صالح اور امانت دار ہو، اس بات کو جاننے کے لیے کتبِ رجال کی طرف مراجعت ضروری ہے، کتب رجال کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند میں موجود تمام راوی ثقہ ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. سب سے پہلے راوی ابوعامر عبدالملک بن عمرو قیسی بصری ہیں، جو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے شیخ ہیں، ان کو امام یحی بن معین، امام نسائی اور بعض دیگر حضرات نے "ثقة" قرار دیا ہے، البتہ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے ان کو "صدوق" کہا ہے،  ان کی بعض روایات کتبِ ستہ میں بھی موجود ہیں، ان کا انتقال دو سو پانچ ہجری(205ھ) میں ہوا۔[1]

     تهذيب الكمال في أسماء الرجال (18/ 367) مؤسسة الرسالة، بيروت:

ع: عبد الملك بن عمرو القيسي  ، أبو عامر العقدي البصري. وقال أبو بكر بن منجويه: عبد الملك بن عمرو بن قيس.

روى عن: إبراهيم بن إسماعيل بن أبي حبيبة..............وقال عثمان بن سعيد الدارمي عن يحيى بن معين: ثقة. وقال أبو حاتم : صدوق. وقال النسائي: ثقة مأمون.............. وقال أبو داود وأبو حاتم بن حبان  : مات سنة خمس ومئتين  . روى له الجماعة.

  1. دوسرے راوی على بن المبارك ہنائى بصری  ہیں، ان کوامام ابوعبیدآجرّی، امام ابوحاتم رازی اور امام یحی بن معین رحمہم اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے تو ان کو حافظ اور متقن کہا ہے، ان کی روایات کتب ستہ کے مصنفین رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں نقل کی ہیں، ان کا انتقال ایک سو ساٹھ ہجری(160ھ) میں ہوا۔

الوافي بالوفيات  لصلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) (21/ 263) دار إحياء التراث بيروت:

الهنائي البصري علي بن المبارك الهنائي البصري وثقه أبو داود وغيره وتوفي في حدود الستين والمائة وروى له الجماعة.

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (6/ 203، الرقم: 1118) دار إحياء التراث العربي:

على بن المبارك الهنائى روى عن يحيى بن أبي كثير والحسن العبدى روى عنه وكيع وسفيان بن حبيب وأبو نعيم ومسلم بن إبراهيم سمعت أبي يقول ذلك، نا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد بن محمد بن حنبل قال قال أبى على بن المبارك ثقة كانت عنده كتب بعضها سمعها من يحيى بن ابى كثير وبعضها عرض، حدثنا عنه يحيى بن سعيد القطان. نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى ابن معين يقول قال بعض البصريين أن على بن المبارك عرض على يحيى بن ابى كثير عرضا وهو ثقة،وليس أحد في يحيى بن أبي كثير مثل هشام الدستوائى والأوزاعي وبعدهما على بن المبارك.[2]

  1. اس سند کے تیسرے راوی ابو المتوکل علی بن داودبصری  ہیں، جو کہ تابعین میں سے ہیں اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، ان کو امام یحی بن معین، علی بن مدینی، امام ابو زرعہ اور امام نسائی رحمہم اللہ وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے اور حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں ان کی ثقاہت پر اتفاق نقل کیا ہے، ان کی روایات بھی کتب ستہ میں موجود ہیں، ان کا انتقال ایک قول کے مطابق ایک  سو دو ہجری(102ھ)  اور ایک قول کے مطابق ایک سو آٹھ ہجری(108ھ)  میں ہوا۔

تهذيب الكمال للمزی (20/ 425، الترجمة: 4066) مؤسسة الرسالة،بيروت:

ع: علي بن داود ، وقيل: ابن دؤاد أبو المتوكل الناجي السامي البصري من بني ناجية بن سامة بن لؤي.

 روى عن: جابر بن عبد الله (خ م س) ، وربيعة الجرشي، وعبد الله بن عباس (م) ، وأبي سعيد الخدري (ع) ، وأبي هريرة (س) ، وعائشة (ت) ، وأم سلمة (س) .

روى عنه: إسماعيل بن مسلم العبدي (م ت س) ، وبكر بن عبد الله المزني، وثابت البناني (س) ، وأبو بشر جعفر بن أبي وحشية (خ م د ت سي ق)............ وقال إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين، وأبو زرعة ، وعلي بن المديني  ، والنسائي: ثقة. وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات"، وقال  : مات سنة ثمان ومئة.[3]

اس روایت کی سند کے آخری راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں، جوکہ مشہور صحابی ہیں، اور صحابہ کرام کے بارے میں محدثین کا اصول یہ ہے کہ "الصحابة کلھم عدول" یعنی تمام صحابہ کرام عادل ہیں۔ نیز صحابہ کرام کی روایات میں خطا بہت کم واقع ہوئی ہے، اس لیے صحابہ کرام کے ضبط کے بارے میں بھی اصول یہ ہے کہ جس روایت کی نسبت وہ صراحتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کریں تو وہ اس میں ضابط شمار ہوں گے، صرف وہم یا نسیان کے احتمال کا اعتبار کرکے اس روایت کو رد نہیں کیا جائے گا۔

دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ اس راوی کا ضبط یعنی حافظہ درست ہو، اس کا علم ائمہ کرام کی تصریح یا اس کی دیگر روایات کو دیکھنے سے ہوتا ہے، نیز جس راوی کے بارے میں ائمہ کرام ثقہ ہونے کی صراحت کریں  تویہ اس کی عدالت کے ساتھ ساتھ اس کے حافظہ کے بھی درست ہونے کی علامت ہوتی ہے، جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کی اپنی صحیح کے مقدمہ میں ذکر کی گئی عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔اور مذکورہ روایت کے تمام رواة کے بارے میں ائمہ کرام کی طرف سے ثقہ ہونے کی صراحت کی گئی ہے، اس لیے اس سند میں صحت کی دوسری شرط بھی موجود ہے۔

صحيح مسلم (1/ 5) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

فأما القسم الأول، فإنا نتوخى أن نقدم الأخبار التي هي أسلم من العيوب من غيرها، وأنقى من أن يكون ناقلوها أهل استقامة في الحديث، وإتقان لما نقلوا، لم يوجد في روايتهم اختلاف شديد، ولا تخليط فاحش، كما قد عثر فيه على كثير من المحدثين، وبان ذلك في حديثهم، فإذا نحن تقصينا أخبار هذا الصنف من الناس، أتبعناها أخبارا يقع في أسانيدها بعض من ليس بالموصوف بالحفظ والإتقان، كالصنف المقدم قبلهم، على أنهم وإن كانوا فيما وصفنا دونهم.

تیسری شرط:حدیث کے صحیح ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اس کی سند متصل ہو، اتصالِ سند کا علم کبھی تو راوی کے بیان کیے گئے صیغے سے ہوتا ہے، جیسے حدثنا، اخبرنا اور انبأنا وغيره اور اگرصیغہٴ عن سے روایت کی گئی ہو تو پھر قرائن سے اتصال سند کا علم ہوتا ہے، اور اس روایت کی سند کا اکثر حصہ بھی  صیغہٴ عن کے ذریعہ روایت کیا گیا ہے اور معنعن روایت کی سند کے اتصال کے لیے جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق اس کے رواة کے درمیان امکان لقاء اور عدمِ تدلیس ہونا ضروری ہے اور مذکورہ سند کے رواة میں یہ دونوں شرطیں موجود ہیں، کیونکہ ان رواة کی تاریخ وفیات (ہرراوی کی تاریخ وفات پیچھے گزر چکی ہے) کے اعتبار سے ان کے درمیان امکان لقاء بھی ہے اور ان کے احوال کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی راوی پر تدلیس کا طعن نہیں کیا گیا، اس لیے اس روایت کی سند متصل شمار ہو گی۔

چوتھی شرط: اس میں شذوذ نہ ہو اور یہ روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے شاذ بھی نہیں، کیونکہ اس روایت میں بیان کیے گئے مضمون کے خلاف کوئی اور ایسی روایت نہیں ملی کہ جس کے راوی اس روایت کے رواة سے اوثق ہوں یا وہ ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعداد میں زیادہ ہوں، اسی طرح اس روایت کے خلاف جماعتِ ثقات سے مروی کوئی روایت بھی نہیں ملی، اس لیےاس روایت کو شاذ قرار دینا بھی مشکل ہے۔

پانچویں شرط: اس روایت کی سند یا متن میں کوئی علت ِخفیہ موجود نہ ہو جو صحتِ حدیث سے مانع ہو۔ اور  بظاہر اس روایت میں علتِ قادحہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اس کا متن منکر نہیں،  بلکہ بعض نصوص سے اس متن کی تائید ہوتی ہے، جن میں سے ایک قرآن کی آیتِ مبارکہ"ادعونی ٲستجب لکم"  بھی ہے، اس آیت میں یہ فرمایا گیا کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا، اس میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دعا کے نتیجے میں وہی چیز عطا کروں گا جو مانگی گئی، لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت کے اجمال کی تفصیل اور توضيح حدیثِ پاک میں بیان فرما دی گئی کہ تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے دعا قبول کی جائے گی۔

 نیز کسی امامِ فن کی طرف سے اس میں علت کی موجودگی کی صراحت بھی نہیں ملی، لہذا ائمہ کرام رحمہم اللہ کی تصریح کے بغیر اس کو معلل بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے جمہورائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح لذاتہ  کا درجہ رکھتی ہے۔ البتہ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اس روایت کے سب سے پہلے راوی ابوعامر عبدالملک بن عمرو قیسی بصری پر "صدوق" کا حکم لگایا ہے اور یہ تعدیل کے پانچویں درجے کے الفاظ میں سے ہے اور ایسے رواة کی روایت حسن کا درجہ رکھتی ہے، نیز اس روایت کے شواہد بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک شاہد کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں اور دوسرے کو امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفرد میں  ذکر فرمایا ہے، اس لیےیہ روایت قابلِ عمل اور قابلِ بیان ہے۔

[1] الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (5/ 360، الرقم: 1698) دار إحياء التراث العربي، بيروت:

عبد الملك بن عمرو أبو عامر العقدي روى عن هشام بن سعد وكثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف روى عنه علي ابن المدينى وغيره سمعت أبي يقول ذلك.

نا عبد الرحمن نا سليمان بن داود القزاز.............قال سألت يحيى بن معين عن عبد الملك بن عمرو ابي عامر فقال: ثقة. ثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عن أبي عامر العقدى فقال: صدوق.

[2] تاريخ ابن معين  برواية الدارمي (ص: 146، الرقم: 500) دار المأمون للتراث، دمشق:

وسأَلته عَن علي بن الْمُبارك فقال ثقة.

کذا فی تهذيب الكمال في أسماء الرجال (21/ 111، الرقم: 4124) مؤسسة الرسالة – بيروت:

ع: علي بن المبارك الهنائي البصري. روى عن: أيوب السختياني (ت س ق) ، والحسن بن مسلم العبدي، وحسين بن ذكوان المعلم (د) ، وعبد العزيز بن صهيب (س) ، ومحمد بن واسع، وهشام بن عروة، ويحيى بن أبي كثير (ع) ، وكريمة بنت همام (د س) ......... وقال أبو عبيد الآجري، عن أبي داود: ثقة............ وقال النسائي: ليس به بأس. وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات"، وقال: كان متقنا ضابطا. روى له الجماعة.

[3] سير أعلام النبلاء (5/8) ط:مؤسسة الرسالة، بيروت:

أبو المتوكل الناجي البصري علي بن داود (ع) محدث، إمام، اسمه: علي بن داود. وقيل: إن داود حدث عن: عائشة، وأبي هريرة، وابن عباس، وأبي سعيد، وجابر. وعنه: قتادة، وحميد الطويل، وخالد الحذاء، وعلي بن علي الرفاعي، وأبو عقيل بشير بن عقبة، وعدة. متفق على ثقته. توفي: سنة اثنتين ومائة.

تقريب التهذيب لابن حجر العسقلانی (ص: 401، الرقم: 4731 ) دار الرشيد – سوريا:

علي ابن داود ويقال ابن داود بضم الدال بعدها واو بهمزة أبو المتوكل الناجي بنون وجيم البصري مشهور بكنيته ثقة من الثالثة مات سنة ثمان ومائة وقيل قبل ذلك ع۔

حوالہ جات
  سنن الترمذي ت بشار (5/ 477) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
حدثنا يحيى بن موسى، قال: أخبرنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الليث هو ابن أبي سليم، عن زياد، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من رجل يدعو الله بدعاء إلا استجيب له، فإما أن يعجل في الدنيا، وإما أن يدخر له في الآخرة، وإما أن يكفر عنه من ذنوبه بقدر ما دعا، ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم أو يستعجل. قالوا: يا رسول الله وكيف يستعجل؟ قال: يقول: دعوت ربي فما استجاب لي.
سنن أبي داود (2/ 78، رقم الحدیث: 1484) المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن أبي عبيد، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يستجاب لأحدكم ما لم يعجل، فيقول: قد دعوت، فلم يستجب لي "
الأدب المفرد (ص: 248،رقم الحديث: 710) دار البشائر الإسلامية – بيروت:
حدثنا إسحاق بن نصر قال: حدثنا حماد بن أسامة، عن علي بن علي قال: سمعت أبا المتوكل الناجي قال: قال أبو سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلم يدعو، ليس بإثم ولا بقطيعة رحم، إلا أعطاه إحدى ثلاث: إما أن يعجل له دعوته، وإما أن يدخرها له في الآخرة، وإما أن يدفع عنه من السوء مثلها "، قال: إذا نكثر، قال: «الله أكثر» [قال الشيخ الألباني] :  صحيح.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے