021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صرف دودھ پلانےکی کوشش سےرضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
82536رضاعت کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ میری سالی کے چار بیٹے ہیں اور وہ میری بڑی بیٹی کا رشتہ اپنے بڑے بیٹے کیلئے لینے آئی، جبکہ اُس نے میری اُسی بڑی بیٹی کو بچپن میں تھوڑی دیر کیلئے دودھ دینے کی کوشش کی تھی جب اُس کا تیسرانمبر بیٹا چار ماہ کا تھا، مگر وہ کہہ رہی ہیں کہ اُس کے تیسرے نمبر بیٹے نے صرف اکیس دن دودھ پیا تھا، جس وقت اُس نے میری بڑی بیٹی کو دودھ دینے کی کوشش کی تو اُس وقت اُس کا بیٹا چار ماہ کا تھا اور اُس وقت اُس میں دودھ نہیں تھا، اِس لئے اُس نے دودھ دینے کی کوشش تو کی، مگر دودھ نہیں تھا۔اِس سلسلے میں آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا مذکورہ صورت میں میں اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ اپنی سالی کے بڑے بیٹے سے کرسکتا ہوں کہ نہیں ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزا ک اللہ خیر۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں اگر سالی کی بات پر آپ کا دل مطمئن ہے اور سالی کو غالب گمان ہے کہ اس وقت دودھ نہیں تھا تو ایسے میں آپ کی بڑی بیٹی کو اس کا دودھ پلانا شرعا ثابت نہیں،لہذاایسی صورت میں مذکورہ رشتہ کرنےمیں شرعا کوئی حرج نہیں۔البتہ اگر دودھ پلائے جانے کاشک ہوتواحتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسارشتہ نہ کیا جائے۔

حوالہ جات
حاشية رد المحتار - (ج 3 / ص 233)
وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول: لم يكن في ثديي لبن ألقمتها ثديي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها، جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية اه ط.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 10 / ص 108)
وعن عقبة بن الحرث أنه تزوج ابنة لأبى إهاب بن عزيز بكسر الهمزة فأتت امرأة فقالت قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها أي للمرضعة عقبة ما أعلم أنك أرضعتني ولا أخبرتني أي قبل ذلك فأرسل إلى آل أبى إهاب أي أهل بيته وأقاربه فسألهم أي عن هذه القضية فقالوا ما علمنا أرضعت أي هي صاحبتنا فركب إلى النبي بالمدينة فسأله أي عن هذه المسئلة فقال رسول الله كيف وقد قيل قال الطيبي رحمه الله كيف سؤال عن الحال وقد قيل حال وهما ييستدعيان عاملا يعمل فيهما أي كيف تباشرها وتفضي إليها والحال أنه قد قيل أنك أخوها إن ذلك بعيد عن ذي الموأة والورع وفيه أن الواجب على المرء أن يجتنب مواقف التهم والريبة وإن كان نقي الذيل بريء الساحة وأنشد قد قيل ذلك أن صدقا وإن كذبا فما اعتذارك من شيءإذا قليلا قال القاضي وهذا محمول عند الأكثرين على الأخذ بالاحتياط إذ ليس هنا إلا أخبار امرأة عن فعلها في غير مجلس الحكم والزوج مكذب لها فلايقبل لأن شهادة الإنسان على فعل نفسه غير مقبولةشرعا وعند بعض الفقهاء محمول على فساد النكاح بمجرد شهادة النساء فقال مالك وابن أبى ليلى وابن شبرمة يثبت الرضاع بشهادة امرأتين وقيل بشهادة أربع وقال ابن عباس بشهادة المرضعة وحلفها وبه قال الحسن وأحمد وإسحاق ذكره الطيبي رحمه الله وقال ابن الهمام استدل بهذا الحديث من قال شهادة الواحدة المرضعة وفي فتاوى قاضيخان رجل تزوج امرأة فأخبره رجل مسلم ثقة أو امرأة أنهما ارتضعا من امرأة واحدة قال في الكتاب أحب إلي أن يتنزه فيطلقها ويعطيها نصف المهر إن لم يدخل بها ولا تثبت الحرمة بخبر الواحدة عندنا ما لم يشهد به رجلان أو رجل وامرأتان وعلى قول للشافعي تثبت حرمة الرضاع بشهادة أربع من النساء ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره رواه البخاري

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۳رجب۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے