021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کلما طلاق کی قسم کھانے کاحکم
82650جنازے کےمسائلایصال ثواب کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں  مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں   کہ  ایک بھائی نے  دوسرے  بھائی کو   کلما  کی قسم  دے کر کہا کہ   نہ میں آپ کے  ساتھ   کھاؤنگا ،نہ وقت گزارونگا ، دونوں  ایک فیملی میں رہ رہے ہیں   اور والدین بھی زندہ ہیں  ، تو اس طلاق کا کیاحکم ہوگا ؟ اس کے بعد ان کا  ساتھ رہنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عوام الناس بعض دفعہ کسی  قسم  دینے  میں لفظ  کلما   کا استعمال   کرتے ہیں ،جس  کو عوام کے عرف میں  طلاق کلما کی قسم   کہاجاتا  کہ کسی معاملہ  میں  یہ کہنا  کہ  کلما کی قسم  میں  ایسا نہیں کرونگا ۔شرعا  یہ قسم معتبر نہیں ،اگر کسی  نے اس طرح  کی قسم کھائی اور بعد میں  وہ کام کرلیا  تو اس  قسم  کی وجہ سے  کوئی طلاق واقع نہیں  ہوگی ۔کیونکہ  طلاق  کلما یہ شرعی اصطلاح ہے  ،مذکورہ صورت اس میں داخل نہیں ۔نیز یہ اس طرح کی قسم  عام طورپر  غیر شادی شدہ  لوگ کھاتے ہیں ، جبکہ وعقع طلاق  کے لئے  ملک یا   ملک کی  طرف نسبت ضروری  ہوتا  جبکہ  اس میں  دونوں  باتیں مفقود  ہوتی ہیں ،خلاصہ  یہ ہے کہ  عوامی  عرف کے مطابق  کلما کی قسم کھانے  سے  طلاق واقع  نہیں ہوگی ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 247)
باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)
قوله ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالبا كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقا كما قدمناه لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر كما مر الی قولہ  ۰۰۰قلت: لكن قال في [نور العين] الظاهر أنه لا يصح اليمين لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال جعلت كلما أو علي كلما أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل ومن هذيانات العوام اهـ فتأمل.       
  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 642)
الحاصل كما في البحر أنه إذا علق بالملك أو بسببه كالشراء لا يشترط تحقق الملك وقت التعليق، وإن علق بغيرهما كدخول الدار اشترط وجود الملك وقت التعليق ووقت نزول الجزاء ولا يشترط وجود الملك فيما بينهما

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

٦رجب  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے