021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک شریک کا مشترکہ پلاٹ کینسل ہونے کے بعد صرف اپنے لیے خریدنا
82652شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

اے اور بی نے مل کر ایک کمپنی سے ایک پلاٹ بک کرایا جو قسطوں پر تھا۔ اس کا ایڈوانس اے نے ادا کیا، قسطیں اے اور بی مل کر ادا کرتے رہے۔ مقررہ وقت تک قسطوں کی ادائیگی نہ ہوسکی، کمپنی نے پلاٹ کینسل کردیا۔ پلاٹ کی بحالی کے لیے اے نے کمپنی سے رجوع کیا تو کمپنی نے اپنے اصول کی بنیاد پر پلاٹ کینسل ہی تصور کیا، البتہ اے سے کہا کہ پلاٹ کی یک مشت ادائیگی کی شرط پر نئے معاہدہ کے تحت پلاٹ دیا جاسکتا ہے، جو کہ ممکن ہے کہ دوسرا ہو یا یہی ہو۔ اے نے بی سے کہا کہ نصف، نصف جمع کیا جائے اور پلاٹ لیا جائے، بی نے معذوری ظاہر کی کہ وہ نصف رقم نہیں دے سکتا۔ اے نے کمپنی سے کچھ وقت لیا؛ تاکہ یک مشت ادائیگی کی جا سکے۔ کچھ عرصہ کے بعد اے نے یکمشت ادائیگی کر کے پلاٹ نام کرالیا۔ پچیس (25) سال گزر گئے، اس عرصہ میں پلاٹ پر مینٹیننس چارجز جو کہ کمیٹی وصول کرتی ہے، اے ادا کرتا رہا۔ بی اس عرصہ میں خاموش رہا۔

اب بی کا دعویٰ ہے کہ اس پلاٹ میں اسے حصہ دیا جائے۔ بی اس سے بھی انکاری ہے کہ پلاٹ کینسل ہونے پر اسے مطلع کیا گیا تھا۔ ایک فیصلے کے دوران اے نے اس بات پر کہ اس نے بی کو مطلع کیا تھا، قسم بھی اٹھائی، لیکن بی نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کمپنی کی طرف سے پلاٹ کے کینسل ہونے کا لیٹر موجود ہے اور یک مشت ادائیگی کی رسید بھی، نیز یہ کہ سارا عرصہ مینٹیننس چارجز بھی وہی ادا کرتا رہا ہے؛ اس لیے اے اور بی نے مل کر جو قسطیں ادا کی تھیں، بی اس کا نصف لینے کا حق دار ہے، پلاٹ جو کہ نئی شرط پر لیا گیا اور بی کو اس میں شامل ہونے کا کہا بھی گیا لیکن وہ شامل نہ ہوا، اس میں بی کا حصہ نہیں بنتا۔

سوال یہ ہے کہ کیا بی اس پلاٹ میں حصہ دار ہے؟ اگر ہاں تو کس تناسب سے حصہ دیا جائے؟ نیز اے کا قسم اٹھانا اور بی کا تسلیم نہ کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟

وضاحت1: سائل نے فون پر بتایا کہ ان دونوں کے درمیان شرکت کا یہ معاملہ ایسا ہوا کہ اے اس کمپنی میں ملازم تھا، اس نے بی سے کہا کہ ایک پلاٹ مشترکہ لے لیتے ہیں، بی نے کہا پلاٹ کی ایڈوانس رقم 20 ہزار ہے جس میں سے 10 ہزار مجھے دینے ہوں گے، یہ میں نہیں دے سکتا۔ اے نے کہا کمپنی کے ملازمین کے لیے ایڈوانس 11 ہزار ہے، وہ میں دیدوں گا، آپ قسط میں اپنا حصہ دیتے رہیں۔ پھر چونکہ اے کے پاس بھی 11 ہزار روپے نہیں تھے تو اس نے کمپنی سے کہا کہ میرا جو فنڈ آپ کے پاس ہے، اس میں سے یہ ایڈوانس رقم کاٹ لیں، چنانچہ کمپنی نے ایسا ہی کیا۔ کاغذات میں پلاٹ اے ہی کے نام تھا، بی کے ساتھ اے کا معاملہ الگ صرف زبانی ہوا تھا۔ باقی قسطیں دونوں نے مشترکہ طور پر دینا شروع کیں۔ بی قسط میں سے اپنا حصہ اے کو دیتا، وہ اس کے ساتھ اپنا حصہ ملا کر کمپنی کو دیتا۔ پلاٹ کی قیمت 81 ہزار 410 روپیہ تھی، 11 ہزار صرف اے نے بطورِ ایڈوانس دئیے تھے، جبکہ 5، 5، ہزار دونوں نے مل کر قسطوں کی شکل میں دئیے تھے، اور 60 ہزار 410 روپیہ باقی تھا، جیساکہ ان کے جاری کردہ لیٹر میں لکھا ہوا ہے جو اس استفتاء کے ساتھ منسلک ہے۔

کمپنی کے اصول و ضوابط میں یہ بات تھی کہ بر وقت قیمت ادا نہ کرنے پر پلاٹ کا سودا ختم کیا جائے گا۔ اے اور بی نے مذکورہ بالا قسطیں ادا کرنے کے بعد قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی، یہ تاخیر اے اور بی دونوں کی طرف سے ہوئی تھی، اے نے بی سے کہا کہ قسط ادا کرنی ہے تو اس نے کہا میں نہیں دے سکتا، میرے پاس پیسے نہیں، اے نے کہا میرے پاس بھی پورے پیسے نہیں ہیں، یوں قسطیں بر وقت ادا نہ ہوسکیں۔   

کمپنی نے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے پہلے ایک نوٹس دیا، پھر 3 مئی 2002ء کو Final  Notice For clearance of Dues  کے عنوان سے دوسرا نوٹس دیا جس میں لکھا تھا کہ 15 مئی تک بقایا جات ادا کریں، ورنہ آپ کا پلاٹ کسی اور کو دوبارہ بک کرایا جاسکتا ہے۔ فائنل نوٹس کا مطلب یہی تھا کہ اس تاریخ کے بعد پلاٹ کی بکنگ کینسل تصور ہوگی۔ جب اے کے پاس یہ لیٹرز آئے تو اس نے بی سے کہا، بی نے کہا میں پیسے نہیں دے سکتا جس کی تفصیل سوال میں لکھی ہوئی ہے۔  اے نے بی کو بتانے کے بعد جن لوگوں کو بتایا کہ میں نے بی کو یہ بات بتادی ہے، وہ لوگ آج بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔  

قسطوں کی ادائیگی کے لیے مقرر کردہ آخری تاریخ کے بعد کمپنی والوں نے کہا فلاں فلاں پلاٹ کینسل ہوکر ہمارے پاس آگئے ہیں، اے نے ان سے کہا کہ میں دوبارہ لینا چاہ رہا ہوں اور وہی پلاٹ لینا چاہ رہا ہوں جو پہلے لیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کو وہی پلاٹ دوبارہ مل جائے گا، جب آپ یکمشت ادائیگی کر کے لینا چاہیں گے تو اس وقت دیکھیں گے، اگر موجود ہوا تو آپ کو وہی دیدیں گے ورنہ کوئی اور۔ چنانچہ پھر اے نے سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق قیمت یکمشت ادا کرلی اور انہوں نے اس کو وہی پلاٹ دوبارہ بیچ دیا۔   

جب کمپنی نے پلاٹ کینسل کیا تھا تو جو قسطیں اے اور بی نے ادا کی تھیں، وہ واپس نہیں کی تھیں؛ کیونکہ ان کا اصول ہوتا ہے کہ ایک مخصوص فیصد ادائیگی نہ ہوئی ہو تو پلاٹ کینسل ہوگا اور ادا شدہ قسطیں واپس نہیں ہوں گی۔ اب اے، بی سے کہہ رہا ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ سے زیادہ ان قسطوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو آپ نے مجھے دی تھیں اور میں نے کمپنی کو ادا کی تھیں۔ 

وضاحت2: قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جب پلاٹ کا سودا کینسل کیا گیا تو اس وقت پلاٹ کمپنی ہی کے قبضے میں تھا، بعد میں جب اے نے یکمشت پیسے ادا کردئیے تو اس کو قبضہ دیا گیا۔

وضاحت3: سوال میں تین چیزوں کا ذکر ہے، پلاٹ کینسل ہونے کا لیٹر، اے نے جب پلاٹ دوبارہ خریدا اور یکمشت ادائیگی کی، اس کی رسید اور میٹیننس چارجز کی رسیدیں۔ سائل سے ان تینوں کی کاپیاں مانگی گئیں تو انہوں نے باقی اقساط کی ادائیگی کے لیے کمپنی کی طرف سے جاری کردہ دو نوٹس بھیج دئیے اور بتایا کہ دوسرے نوٹس پر جو "فائنل" لکھا ہوا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کے بعد پلاٹ خود بخود کینسل ہوجائے گا، یہ اس کمپنی کا طریقۂ کار ہے، یہ دونوں نوٹس سوال کے ساتھ منسلک ہیں۔ یکمشت ادائیگی کی رسید کے بارے میں بتایا کہ میرے پاس تھی، ابھی کافی تلاش کی، لیکن نہیں ملی۔ البتہ میٹیننس چارجز کی رسیدیں مختلف مہینوں کی بھیج دی ہیں جو سوال کے ساتھ منسلک ہیں۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ:

  1. مفتی غیب نہیں جانتا، بلکہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے، غلط بیانی کرکے فتویٰ لینے سے کوئی حلال حرام نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی حرام حلال ہوتا ہے،  غلط بیانی کا وبال بھی سائل پر آئے گا۔
  2. اس شرط پر خرید و فروخت کرنا کہ اگر خریدار نے مقررہ وقت پر قیمت ادا نہ کی تو سودا ختم ہوجائے گا، "خیار النقد" کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس کا حکم یہ لکھا ہے کہ اگر بر وقت قیمت کی ادائیگی ہوگی تو بیع درست ہوجائے گی، ورنہ بیع فاسد ہوگی۔
  3.  بیعِ فاسد کو ختم کرنا فریقین پر لازم ہوتا ہے، اگر کوئی ایک فریق بھی کہہ دے کہ میں نے یہ معاملہ ختم کردیا ہے تو معاملہ ختم ہوجائے گا۔ البتہ بیعِ فاسد میں اگر بیچنے والا پوری یا کچھ قیمت لے چکا ہے تو معاملہ ختم کرنے کے بعد وہ واپس کرنا اس کے ذمے بہر حال لازم اور ضروری ہوتا ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا تفصیلات درست ہیں تو جب اے اور بی دونوں نے قسطیں بر وقت ادا نہیں کیں تو خرید و فروخت کا یہ معاملہ فاسد ہوگیا تھا، اس کے بعد جب کمپنی نے ان کو معاملہ ختم کرنے کا بتایا تو وہ فاسد معاملہ فسخ یعنی ختم ہوگیا تھا، کمپنی پر لازم تھا کہ اس وقت تک وصول کردہ قسطیں فورا اے اور بی کو واپس کرتی، پلاٹ کینسل کرنے کے بعد وہ قسطیں ضبط کرنا جائز نہیں تھا، اب کمپنی پر لازم ہے کہ وہ رقم واپس کردے، اگر کمپنی وہ رقم واپس کرتی ہے تو اس میں سے بی کی رقم اس کو واپس کرنا اے پر لازم ہوگا، ورنہ وہ قسطیں واپس کرنا بھی اے پر لازم نہیں۔  بہر حال یہ معاملہ ختم ہوجانے کے بعد جب "اے" نے وہ پلاٹ نئے معاملے کے تحت کمپنی سے یکمشت قیمت کے بدلے دوبارہ صرف اپنے لیے خریدا تو اب وہ صرف اسی کا ہوگا، "بی" کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔

جہاں تک "بی" کا کمپنی کی طرف سے جاری کردہ نوٹسز سے متعلق "اے" کے اطلاع دینے سے انکار کا تعلق ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا؛ کیونکہ یہ اطلاع دینا "اے" کی ذمہ داری نہیں تھی، "بی" کو چاہیے تھا کہ وہ قسطوں کی ادائیگی کے لیے "اے" یا کمپنی کی طرف رجوع کرتا، بیس بائیس سال تک خاموش اور لاتعلق رہنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اسے پلاٹ کی بکنگ کینسل ہونے کا علم تھا، لہٰذا "اے" پر اطلاع دینے کے گواہ پیش کرنا یا اس پر قسم اٹھانا بھی لازم نہیں۔  

حوالہ جات
الدر المختار (4/ 571):
( فإن اشترى ) شخص شيئا ( على أنه ) أي المشتري ( إن لم ينقد ثمنه إلى ثلاثة أيام فلا بيع صح ) استحسانا خلافا لزفر، فلو لم ينقد في الثلاث فسد فنفذ عتقه بعدها لو في يده فليحفظ ( و ) إن اشترى كذلك ( إلى أربعة ) أيام ( لا ) يصح خلافا لمحمد ( فإن نقد في الثلاثة جاز ) اتفاقا؛ لأن خيار النقد ملحق بخيار الشرط، فلو ترك التفريع لكان أولى.
رد المحتار (4/ 571):
قوله ( خلافا لمحمد ) فإنه جوزه إلى ما سمياه.
المجلة (ص: 63):
مادة 313 : إذا تبايعا على أن يؤدي المشتري الثمن في وقت كذا وإن لم يؤده فلا بيع بينهما صح البيع، وهذا يقال له خيار النقد.
مادة 314: إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا.
شرح المجلة للأتاسي (2/257):
شرح المادة 313:
قال في الهندیة:  إذا باع على أنه إن لم ينقد الثمن إلى ثلاثة أيام فلا بيع بينهما فالبيع جائز وكذا الشرط، هكذا ذكر محمد رحمه الله تعالى في الأصل. وهذه المسألة على وجوه: إما أن لم يبين الوقت أصلا بأن قال: على أنك إن لم تنقد الثمن فلا بيع بيننا، أو بين وقتا مجهولا بأن قال: على أنك إن لم تنقد الثمن أياما، وفي هذين الوجهين العقد فاسد، وإن بين وقتا معلوما إن كان ذلك الوقت مقدرا بثلاثة أيام أو دون ذلك فالعقد جائز عند علمائنا الثلاثة رحمهم الله تعالى، وإن بين المدة أكثر من ثلاثة أيام قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى: البيع فاسد، وقال محمد رحمه الله تعالى: البيع جائز اه.
وفي البحر عن غایة البیان أن أبا یوسف مع الإمام في قوله الأول، والذي رجع إلیه أنه مع محمد. وقد اختارت جمعیة المجلة قول محمد رحمه الله تعالیٰ مراعاةً لمصلحة الناس في هذا الزمان، کما صرحت بذلك في تقریرها المتقدم للمرحوم عالي باشا الأعظم.
شرح المادة 314:
(کان البیع الذي فیه خیار النقد فاسدا) أي لا منفسخا کما یقتضیه ظاهر هذا الشرط لقوله "فلا بیع بینهما".
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 262):
شرح المادة 314:
( في المدة المعينة ) يؤخذ من هذه العبارة أن المشتري إذا لم يؤد الثمن في المدة المعينة بل بعد انقضائها فلا ينقلب البيع إلى الصحة؛ لأنه صار فاسدا بعدم الأداء ولا يرتفع الفساد بعد ذلك. ( بقي المبيع على حاله ) فإذا لم يبق على حاله وتصرف فيه المشتري في المدة المعينة قبل نقد الثمن أو تلف في يده أو استهلكه فالبيع يصير لازما ولا يبقى حق الفسخ فلذلك يجب على المشتري أن يؤدي ثمن المبيع إلى البائع ( رد المحتار ).

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     06/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے