021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کمیٹی اور امام کے درمیان اختلافات
82812وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک مسجد کے حوالے سے کچھ مسائل درپیش ہیں۔ اراکینِ کمیٹی کی اولین ترجیح یہ ہے کہ معاملات علما کی مشاورت سے حل کیے جائیں۔ مسجد میں امام، مؤذن اور دو خادم باقاعدہ تنخواہ کے ساتھ مقرر ہیں۔ مسجد کے امام اور مؤذن کو کمیٹی کی جانب سے فیملی رہائش دی گئی ہے،جس میں گیس اور بجلی کا مفت انتظام موجود ہے۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:

(1)۔۔۔ مسجد کے امام صاحب نے کمیٹی کی اجازت کے بغیر اپنے دو صاحبزادوں کو بھی امام بنا رکھا ہے جو پنج وقتہ نمازیں اور جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں،  مسجد میں موجود دو کمرے جن میں یہ دونوں حضرات اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں،  ان میں بجلی اور گیس کا استعمال ہوتا ہے ، جب ان سے بجلی اور گیس کے بلوں کا تقاضا کیا جائے تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ ہم بھی تومسجد کے امام ہیں، حالانکہ ایک امام پہلے سے موجود ہیں اور ان کو تمام سہولیات بھی کمیٹی کی جانب سے دی گئی ہیں۔ اس مسئلے کا شرعی حل کیا ہے؟

(2)۔۔۔ امام صاحب کے یہ صاحبزادے فیملی سمیت جن کمروں میں رہائش پذیر ہیں، یہ دونوں کمرے 12 سال قبل مسجد کی توسیع کے دوران بنائے گئے تھے، جن کا مقصد یہ تھا کہ ایک کمرہ باہرسے آنے والی تبلیغی جماعت کی رہائش کے لیے ہوگا، جبکہ دوسرا کمرہ لائبریری کے لیے ہوگا جس میں باقاعدہ لائبریری اور دفترکا انعقاد کیا جانا تھا، لیکن امام صاحب نے کمیٹی کی اجازت کے بغیر یہ دونوں کمرے اپنے صاحبزادوں کو الاٹ کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے کئی دفعہ مسجد میں کافی فتنہ فساد ہوچکا ہے؛ کیونکہ اصول کا تقاضا تو یہی ہے کہ دونوں کمرے جس بنیاداور نیت کے ساتھ بنائے گئے تھے، اسی کے لیے استعمال کیے جائیں ۔ اس معاملہ کا شرعی حل کیا ہونا چاہیے؟  

 (3)۔۔۔ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ ان کمروں کی تعمیر فیملی رہائش کے  لیے نہیں کی گئی تھی، اس لیے ان کا کوئی بیرونی راستہ بھی نہیں، جبکہ دونوں کمروں میں امام صاحب کے دونوں صاحبزادے مع فیملی رہائش پذیر ہیں، جس کی وجہ سے 13 سال سے مسجد باقاعدہ گزرگاہ بنی ہوئی ہے، عورتیں اور بچے سب مسجد سے گزرکر باہر اور اندرآنا جانا کرتے ہیں، کافی علما اور مقتدی اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے۔

(4)۔۔۔ مسجد میں گزشتہ 30 سال سے امام صاحب اور مؤذن صاحب محلہ کے بچوں کوقرآنِ پاک کی تعلیم بلامعاوضہ دیتے آئے ہیں،جس کی کمیٹی ان حضرات کو باقاعدہ تنخواہ دیتی ہے، لیکن امام صاحب کے چھوٹے صاحبزادے نے مسجد میں ایک مدرسے کا انعقاد کیا جس میں بچوں سے1,000 سے 1,500 روپے ماہانہ فیس لی جانے لگی، جو ایک تعلیمی کاروبار کی شکل اختیارکرگیا ہے، جبکہ 2005ء  میں ہونے والی مسجد کی توسیع کے حوالے سے امام صاحب اور اراکینِ کمیٹی سے باقاعدہ حلف لیا گیا تھا کہ مسجد کو کبھی بھی کاروباری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا، ان حلف ناموں کی کاپیاں منسلک ہیں۔  

اس طرح سے مسجد کی عمارت کو مدرسہ کی نذر کردیاگیا ہے جس کی وجہ سے مسجدسارا دن گزرگاہ بنی رہتی ہے، مسجد کا تقدس مستقل پامال ہوتا ہے، بجلی اور پانی کا استعمال بڑھ گیا ہے، کمیٹی نے کئی دفعہ اصرار کیا کہ کم از کم بجلی کے بل میں رقم دیا کریں، لیکن مستقل انکارکا سامنا ہوتا ہے، مسجد کی کمیٹی کو لاکھوں روپے کے بل جمع کروانے پڑتے ہیں، جبکہ یہ حضرات اپنی آمدنی بذریعہ مدرسہ اسی مسجد سے کر رہے ہیں۔ اس مدرسہ کے حوالے سے کیا شرعی حل ہونا چاہیے؟

(5)۔۔۔ امام صاحب کے بڑے صاحبزادے کی امامت کے حوالے سے مسجد میں کافی مسائل کا سامنا رہتا ہے، کیونکہ یہ صاحب چکوال سے تعلق رکھنے والے اکرم اعوان صاحب مرحوم کے سلسلے الاخوان سے تعلق رکھتے ہیں ، جن کے عقائد میں شیخ کا سالکین کو  فوت شدہ لوگوں کی ارواح سے فیض حاصل کروانا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باضابطہ بیعت کرواناشامل ہیں،  ایسے فرسودہ عقائد کی مسجد میں کھلم کھلا دعوت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسجد کا ماحول کسی اور طرف ہی جاتا معلوم ہورہا ہے، ان عقائد کے حوالے سے جامعہ فارقیہ کے اساتذہ نے کئی بار ان کی اصلاح فرمائی ہے؛ کیونکہ یہ جامعہ فاروقیہ کے فارغ التحصیل ہیں، لیکن انہوں نے ان عقائد سے بالکل رجوع نہیں کیا، اب یہ معاملات اتنے سنگین اور غیر معمولی ہیں کہ ہم از خود کوئی علمی رائے تو نہیں دے سکتے، لیکن ہم اور مسجد کے دیگر نمازی بھی ایسے عقائد کو کم ازکم درست نہیں سمجھتے اور اکثر مسجد میں اس حوالے سے اختلافات چلتے رہتے ہیں۔ کیا ایسے عقائد رکھنا درست ہے؟ نیز کیا ان کو امامت سے روک دیا جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مذکورہ بالا تفصیلات درست ہیں تو آپ کے سوالات کے جوابات حسبِ ذیل ہیں:

(1 تا 3)۔۔۔ جب مسجد کے امام صاحب خود بحیثیتِ امام مسجد میں موجود اور رہائش پذیر ہیں تو ان کے شادی شدہ بیٹوں کا مسجد کے ان کمروں میں فیملی سمیت رہائش اختیار کرنا درست نہیں، شادی کے بعد بچے والد کے تابع نہیں رہتے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ مسجد کے کمرے خالی کریں؛ تاکہ مسجد گزر گاہ بننے سے محفوظ ہو اور یہ کمرے انہی مقاصد میں استعمال ہوں جن کے لیے ان کی تعمیر ہوئی ہے۔

(4)۔۔۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے عام حالات میں مسجد میں اجرت پر تعلیمِ قرآن کو مکروہ قرار دیا ہے؛ کیونکہ مساجد کمائی کے لیے نہیں، خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیں۔ صورتِ مسئولہ میں جب محلہ کے بچوں کے لیے بغیر فیس تعلیم کا انتظام پہلے سے موجود ہے تو امام صاحب کے صاحبزادے کا اسی مسجد میں اجرت لے کر سبق پڑھانا اور مسجد کی بجلی اور گیس استعمال کرنا درست نہیں۔

(5)۔۔۔ جب مسجد کے امام صاحب موجود ہیں تو ان کے بیٹوں کا مستقل امامت کرانا اصولًا درست نہیں، امام صاحب کو اپنی ذمہ داری خود نبھانی چاہیے۔ جہاں تک شیخ کا سالکین کو فوت شدہ لوگوں کی ارواح سے فیض حاصل کروانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باضابطہ بیعت کروانے کا تعلق ہے تو اگر کوئی ان باتوں کا اسی طرح عقیدہ رکھتا ہو جیسے سوال میں مذکور ہے تو یہ غلط ہے، ایسے شخص کو اپنے اختیار سے امام بنانا درست نہیں۔ البتہ انفرادی طور پر اولیاء اللہ کی قبور سے کسبِ فیض اور کسی کو خرقِ عادت کے طور پر بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوجانا الگ بات ہے، یہ ممکن ہے اور علمائے دیوبند اس کے قائل ہیں، لیکن ان امور کو کسی دینی سلسلے کا مستقل حصہ بنانا اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا شرعی حدود سے تجاوز ہے، جس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔  

حوالہ جات
رد المحتار (4/ 495):
وما خالف شرط الواقف فهو مخالف للنص، وهو حكم لا دليل عليه، سواء كان نصه في الوقف نصا أو ظاهرا آه. وهذا موافق لقول مشايخنا كغيرهم "شرط الواقف كنص الشارع"، فيجب اتباعه كما صرح به في شرح المجمع للمصنف آه.
الإسعاف في أحکام الأوقاف(56):
ویتحریٰ فی تصرفاته النظر للوقف و الغبطة؛ لأن الولایة مقیدة به، حتیٰ لوآجر الوقف من نفسه  أو سکنه بأجرة المثل لایجوز،وکذا إذا آجره من ابنه أو أبیه أوعبده أومکاتبه للتهمة، ولا              نظر معها،وسیأتی مافیه من الإختلاف فی باب الإجارة.
مجمع الضمانات (2/ 692):
المتولي لو أسكن دار الوقف بلا أجر قيل لا شيء على الساكن وعامة المتأخرين على أن عليه أجر المثل، سواء أعدت الدار للغلة أو لا صيانة للوقف عن الظلمة وقطعا للأطماع الفاسدة، وبه يفتى، وكذا لو سكن دار الوقف بلا إذن الواقف والقيم يلزمه أجر المثل بالغا ما بلغ.
فتح القدير(1/ 369):
ولا يجوز أن تعمل فيه الصنائع؛ لأنه مخلص لله، فلا يكون محلا لغير العبادة غير أنهم قالوا في الخياط إذا جلس فيه لمصلحته من دفع الصبيان وصيانة المسجد لا بأس به للضرورة ولا يدق الثوب عند طيه دقا عنيفا، والذي يكتب إذا كان بأجر يكره وبغير أجر لا يكره، هذا إذا كتب العلم والقرآن؛ لأنه في عبادة. أما هؤلاء المكتبون الذين تجتمع عندهم الصبيان واللغط فلا (و لو) لو لم يكن لغط؛ لأنهم في صناعة لا عبادة؛ إذ هم يقصدون الإجارة ليس هو لله، بل للإرتزاق. ومعلم الصبيان القرآن كالكاتب إن كان لأجر لا، وحسبةً لا بأس به. و منهم من فصل هذا إن كان لضرورة الحر وغيره لا يكره وإلا فيكره، وسكت عن كونه بأجر أو غيره، وينبغي حمله على ما إذا كان حسبة، فأما إن كان بأجر فلا شك في الكراهة، وعلى هذا فإذا كان حسبة ولا ضرورة يكره؛ لأن نفس التعليم ومراجعة الأطفال لا تخلو عما يكره في المسجد.
حلبی کبیر/ غنیة المتملی فی شرح منیة المصلی (ص، 612-611):
فصل فی أحکام المسجد:……….أما الکاتب و معلم الصبیان فإن کان بأجر یکره، و إن کان حسبة فقیل لا یکره، و الوجه ما قاله ابن الهمام أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورة؛ لأن نفس التعلیم و مراجعة الأطفال لا یخلو عما یکره فی المسجد مع ما تقدم من الحدیث.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     06/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے