021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اے ایم سی سی میکس (AMCC max) ارننگ ایپ کا حکم
82731خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اے ایم سی سی میکس (AMCC  max) ایک آن لائن ارننگ ایپ ہے، اس میں فاریکس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ ٹریڈنگ پورا دن ہوتی ہے، البتہ دن میں پانچ منٹ ایسے ہوتے ہیں جن میں کمپنی ہمیں سگنل دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ مارکیٹ اوپر جائے گی ، ان پانچ منٹ میں انویسٹمنٹ کرنے سے عموما نفع ہی ہوتا ہے، نقصان نہیں ہوتا۔ کم از کم انویسٹمنٹ 54 ڈالر ہے، جب ہم اس ایپ میں خرید و فروخت کرتے ہیں تو باقاعدہ کرنسی کا تبادلہ نہیں کرتے اور کرنسی ایک دوسرے کو ٹرانسفر نہیں کرتے ، بلکہ ریٹ اوپر نیچے ہونے سے جو فرق آتا ہے اس کی وجہ سے ہمیں نفع یا نقصان ہوتا ہے۔ نفع جب تک دس ڈالر نہ ہوں، اس وقت تک ہم اس کو نہیں نکال سکتے، دس ڈالر تک پہنچنے کے بعد نکال سکتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کرنسی کی خرید و فروخت جائز ہونے کی تین بنیادی شرائط ہیں، (1) حقیقی خرید و فروخت ہو، صرف ایپ میں خرید و فروخت ظاہر نہ کی جاتی ہو (2)  خرید و فروخت کی مجلس میں ہی کم از کم کسی ایک کرنسی پر (حسی یا حکمی) قبضہ ہوجائے (3) بیچنے والا جتنی کرنسی بیچ رہا ہے وہ اتنی کرنسی کا مالک ہو اور خریدنے والے کو اس کا قبضہ دینے پر قادر ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوگی تو معاملہ ناجائز ہوگا۔

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اے ایم سی سی میکس (AMCC max) پر جو فاریکس ٹریڈنگ ہوتی ہے، اس میں کرنسی کی حقیقی خرید و فروخت نہیں ہوتی، نہ ہی خریدنے اور بیچنے والا ایک دوسرے کو کرنسیوں کا قبضہ دیتے ہیں، بلکہ صرف ایپ میں خرید و فروخت ظاہر کی جاتی ہے، اصل مقصد کرنسیوں کی قیمتیں اوپر نیچے ہونے سے پیدا ہونے والا فرق لینا دینا ہوتا ہے جو کہ شرعا قمار یعنی جوا میں داخل اور حرام ہے، لہٰذا اس ایپ میں انویسٹمنٹ اور کام کرنے سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔

حوالہ جات
فقه البیوع (2/265-263):
 337- تجارة العملات عن طریق الفوریکس:
وقد شاع في عصرنا التجارة في العملات عن طریق "سوق العملات الخارجیة" (Foreign Exchange  Trade) والذي یخفف فیقال: فوریکس (Forex)، وهذه سوق تتبادل فیها العملات بمقدار کبیر یبلغ قیمتها 38 تریلیون یومیًا، ومعظمها لعملیات المجازفة والتخمین(Speculation)، وإن هذا السوق لها طرق مختلفة للتجارة، وإن معظمها تشتمل علی محظورات شرعیة نذکر بعضها فیما یلي:
1- الأصل في العملات والنقود أنها وسیلة لتقویم الأشیاء ولیست مقصودةً بنفسها، وإن الشریعة الإسلامیة لاتستحسن أن تکون هي محل التجارة بنفسها، إلا لحاجة حقیقیة لتبادل بعض العملات ببعض. ولذلك فرضت علی بیع النقود شروطًا و قیودًا فصلناها أعلاه في مباحث الصرف. ولکن هذا السوق جعلت العملات محل التجارة بنفسها بما أحدث فسادًا کبیراً في النظام المالي المعاصر. وقد شرحت ذلك في بحثي "أسباب الأزمة المالیة وعلاجها في ضوء الشریعة الإسلامیة". وإنما حدث ذلك بعدم التقید بأحکام الشریعة في بیع العملات.
2- شرحنا فيما قبل أن العملات الورقیة عند کثیر من العلماء المعاصرین والمجامع الفقهیة في حکم الذهب والفضة، فیشترط فی مبادلتها التقابض في المجلس. وإن هذا الشرط مفقود في معظم عملیات هذه السوق، فإنها تنقسم إلی بیع عاجل و آجل. وإن التقابض مفقود فیهما؛ لأن ما یسمی "البیع العاجل" (Spot  Sale)    لایقع فیه التقابض إلا بعد یومین من یوم العقد. وأما علی الموقف الثالث الذي شرحناه ورجحناه فإنه یجب في تبادل العملات المختلفة الجنس أن یقع القبض علی إحدی العملتین في مجلس العقد. وهذا الشرط مفقود أیضا  في هذا السوق، فإنما یقع البیع والشراء عموما عن طریق الکمبیوتر أو الإنترنیت.
3- وکثیرا ما یبیع الإنسان ما لایملکه، ولایقع التسلیم والتسلم في کثیر من عملیات السوق، وإنما یصفی الباعة والمشترون عملیاتهم بفروق الأسعار.
4- وقد تعطی بورصة العملات فرصة للإنسان أن یودع فیها مبلغا أقل ویتجر بمبلغ أکثر، وتقدم البورصة ضمانًا للمبلغ الباقي بعمولة تطالبها من المتعامل بالأکثر، ویسمی "البیع بالهامش" (Sale   on   Margin)، وهذا في الحقیقة قرض یتقاضی علیه فوائد ربویة.
5- ما یشتریه الإنسان عن طریق هذه السوق عملات غیر متعینة؛ لأن التعیین في العملات إنما یتحقق بالقبض، وهو مفقود في معظم العملیات.
ومن هذه الجهات فإنه لایجوز التعامل شرعًا عن طریق سوق الفوریکس.
أما الحاجة الحقیقیة لتبادل العملات للسفر أو للتجارة الدولیة فإنها توفی عن طریق البیع والشراء العادي من الصرافین، بشرط أن یتقید المتعامل بالشروط الشرعیة التي سبقت.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

10/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے