021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبلہ سے 13 درجے منحرف مسجد کا حکم
82879وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہم نے ایک مؤقر ادارےسے شعبہ فلکیات کے ایک ماہر کوبلاکران سےمسجد کا قبلہ رکھوایا، مگرتعمیرکے وقت مستری سے کچھ غلطی ہوئی اوراس نے نادانستہ قبلہ کے نشانات سے کچھ ہٹ کر قبلہ رکھا،جب مسجدکا ڈھانچہ مکمل ہوا  اورصفوں کے لیے ماربل لگانے کا وقت آیاتو ہم نے پھر متعلقہ ادارے کے ایک اورماہر کوقبلہ چیک کرنے کےلیے بلایا، انہوں نے دو مختلف دنوں میں قبلہ چیک کیا تو اس میں 13 درجےکا فرق پایا،اب پوچھنا یہ ہے کہ

کیاہم صفوں کے لیے ماربل قبلہ کے رخ پرصحیح صحیح لگائیں یا جیسے مسجد منحرف بنی ہے اسی طرح لگائیں اوراسی رخ پر نماز پڑھیں؟ اگرایسا کیا گیا تو نماز کا کیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قبلہ رخ نماز پڑھنا نماز کی شرائط میں سے ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں مستری کوچاہیےتھا وہ کمالِ احتیاط سے کام لیتے ہوئے ماہر کےمتعین کردہ قبلہ کے نشانات پر صحیح صحیح دیوارِ قبلہ کی تعمیرکرتا،تاہم نادانستہ اس سے جب غلطی ہوہی گئی ہے اورقبلہ 13درجے منحرف رکھ لیاگیاہےتو اب اس کاحکم یہ ہےکہ چونکہ اس مسجد کی ڈھانچے کی تعمیرہوچکی ہے،لہذا  اگر اس میں اسی رخ پر ماربل لگاکرنماز پڑھ لی جائے تو 45 درجے سے انحراف کم ہونے کی وجہ سے نماز تو بہرحال ہوجائے گی، تاہم بہتریہ ہے کہ صفوں کے ماربل صحیح رخ پر لگائےجائیں اورجو جگہ ایک طرف بچ جائے اس میں قرآن شریف رکھنے کی کوئی الماری وغیرہ رکھ لی جائے تاکہ یہ عمل مسلمانوں کے قلوب میں وساوس اورخطرات پیداکرنےکا موجب نہ بنے۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ  فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ  وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ  وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا
يَعْمَلُونَ (البقرة: 144)
{وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ}
(البقرة: الآية 150)
وفی تفسیر ابن کثیر:
عن عمير بن زياد الكندي ، عن علي ، رضي الله عنه ، ( فول وجهك شطر المسجد الحرامقال : شطره : قبله . ثم قال : صحيح الإسناد ولم يخرجاه .وهذا قول أبي العالية ، ومجاهد ، وعكرمة ، وسعيد بن جبير ، وقتادة ، والربيع بن أنس ، وغيرهم . وكما تقدم في الحديث الآخر : ما بين المشرق والمغرب قبلة .[ وقال القرطبي : روى ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " ما بين المشرق والمغرب قبلة لأهل المسجد ، والمسجد قبلة لأهل الحرم ، والحرم قبلة لأهل الأرض في مشارقها ومغاربها من أمتي " ] .......وقوله : ( وحيثما كنتم فولوا وجوهكم شطرهأمر تعالى باستقبال الكعبة من جميع جهات الأرض شرقا وغربا وشمالا وجنوبا ، ولا يستثنى من هذا شيء ، سوى النافلة في حال السفر ، فإنه يصليها حيثما توجه قالبه ، وقلبه نحو الكعبة . وكذا في حال المسايفة في القتال يصلي على كل حال ، وكذا من جهل جهة القبلة يصلي باجتهاده ، وإن كان مخطئا في نفس الأمر ، لأن الله تعالى لا يكلف نفسا إلا وسعها .
وفی الھدایة (1/95)باب شروط الصلوة التی تتقدمھا:
ویستقبل القبلة لقولہ تعالی فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ  ثم من کان بمکة ففرضہ اصابة عینھا ومن کان غائبا ففرضہ اصابة جھتھا ھو الصحیح لان التکلیف بحسب الوسع.
وفی فتح القدیر:
في التجنیس: هذا یشیر إلی أن من کان بمعاینتہ الکعبۃ، فالشرط إصابۃ عینها، ومن لم یکن بمعاینتها، فالشرط إصابۃ جهتها، وهو المختار۔ ( باب شروط الصلوۃ التي تتقدمہا، ۱/ ۲۳۴-۲۳۵، زکریا ۱/ ۲۷۴-۲۷۶)
وفی رد المحتار  (ج 3 / ص 335):
قد علمت أنه لو فرض شخص مستقبلا من بلده لعين الكعبة حقيقة ، بأن يفرض الخط الخارج من جبينه واقعا على عين الكعبة فهذا مسامت لها تحقيقا ، ولو أنه انتقل إلى جهة يمينه أو شماله بفراسخ كثيرة وفرضنا خطا مارا على الكعبة من المشرق إلى المغرب وكان الخط الخارج من جبين المصلي يصل على استقامة إلى هذا الخط المار على الكعبة فإنه بهذا الانتقال لا تزول المقابلة بالكلية لأن وجه الإنسان مقوس ، فمهما تأخر يمينا أو يسارا عن عين الكعبة يبقى شيء من جوانب وجهه مقابلا لها ، ولا شك أن هذا عند زيادة البعد ؛ أما عند القرب فلا يعتبر كما مر ؛ فقول الشارح هذا معنى التيامن والتياسر : أي أن ما ذكره من قوله بأن يبقى شيء من سطح الوجه إلخ مع فرض الخط على الوجه الذي قررناه هو المراد بما في الدرر عن الظهيرية من التيامن والتياسر : أي ليس المراد منه أن يجعل عن يمينه أو يساره ، إذ لا شك حينئذ في خروجه عن الجهة بالكلية ، بل المفهوم مما قدمناه عن المعراج والدرر من التقييد بحصول زاويتين قائمتين عند انتقال المستقبل لعين الكعبة يمينا أو يسارا أنه لا يصح لو كانت إحداهما حادة والأخرى منفرجة بهذه الصورة : والحاصل أن المراد بالتيامن والتياسر الانتقال عن عين الكعبة إلى جهة اليمين أو اليسار لا الانحراف ، لكن وقع في كلامهم ما يدل على أن الانحراف لا يضر ؛ ففي القهستاني : ولا بأس بالانحراف انحرافا لا تزول به المقابلة بالكلية ، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا للكعبة .ا هـ .وقال في شرح زاد الفقير : وفي بعض الكتب المعتمدة في استقبال القبلة إلى الجهة أقاويل كثيرة وأقربها إلى الصواب قولان : الأول أن ينظر في مغرب الصيف في أطول أيامه ومغرب الشتاء في أقصر أيامه فليدع الثلثين في الجانب الأيمن والثلث في الأيسر والقبلة عند ذلك ، ولو لم يفعل هكذا وصلى فيما بين المغربين يجوز ، وإذا وقع خارجا منها لا يجوز بالاتفاق ا هـ ملخصا .وفي منية المصلي عن أمالي الفتاوى : حد القبلة في بلادنا يعني سمرقند : ما بين المغربين مغرب الشتاء ومغرب الصيف ، فإن صلى إلى جهة خرجت من المغربين فسدت صلاته ا هـ وسيأتي في المتن في مفسدات الصلاة أنها تفسد بتحويل صدره عن القبلة بغير عذر ، فعلم أن الانحراف اليسير لا يضر ، وهو الذي يبقى معه الوجه أو شيء من جوانبه مسامتا لعين الكعبة أو لهوائها ، بأن يخرج الخط من الوجه أو من بعض جوانبه ويمر على الكعبة أو هوائها مستقيما ، ولا يلزم أن يكون الخط الخارج على استقامة خارجا من جبهة المصلي بل منها أو من جوانبها كما دل عليه قول الدرر من جبين المصلي ، فإن الجبين طرف الجبهة وهما جبينان ، وعلى ما قررناه يحمل ما في الفتح والبحر عن الفتاوى من أن الانحراف المفسد أن يجاوز المشارق إلى المغارب ا هـ فهذا غاية ما ظهر لي في هذا المحل ، والله تعالى أعلم.
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’اوپر کی گنجائش بنی ہوئی مساجد کے لیے مذکورہوئی ہے ،تاکہ جمہورمسلمین کا تخطیہ لازم نہ آئے لیکن قصداً مسجد منحرف بناناجس میں مفسدہ مذکورہ یعنی تخطیہ سے زیادہ مفاسدہیں جیسے افتراق بین المسلمین واطالتِ لسان معترضین وجسارت عوام علی الخروج عن الحدودواستخفاف حدود وامثالھاخلاف مصلحت ہے نظیرہ مامر من عدم اعتبارالنجوم فی المساجد القدیمۃ وفی اعتبارھافی المفاوز،ان مفاسد کے مقابلہ میں رقبہ کا کم ہونا اھون ہے‘‘(امداد الفتاوی:1/197)
حضرت مولانامفتی محمود حسن گنکوہی ؒ فرماتے ہیں:
’’دیدہ دانستہ انحراف کے ساتھ (مسجدکی)تعمیر ہرگزنہ کی جائے ،ہوسکتاہے کہ ابتداءً سابقہ مسجد بنانے کے لیے پورالحاظِ قبلہ کا نہ ہوسکاہو ،کوئی ذریعہ علم کا نہ ہو،اب  صحیح علم کا ذریعہ موجود ہے، دیگرمساجد  کوبھی دیکھ لیاجائے ،قطب نماسے بھی اندازہ کرلیاجائے تب تعمیر کی جائے‘‘(فتاوی محمودیۃ: 5/530)
حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں :
قصداًباوجود علم کے نودس درجے کے انحراف کو نظر انداز کردینا اورغلط سمت پر نماز پڑھنامسلمانوں کے قلوب میں خطرات ووساوس پیداکرنے کا موجب ہوگا،اس لیے مسجد میں صحیح سمت کےنشان قائم کرکے ہی نماز ادا کرنی چاہئیں (کفایۃ المفتی 3:/175)
نیزفرماتے ہیں :
قدرے انحراف کرکے رخ بالکل سیدھا کرلیں تو خلفشارنہ رہے اورسب کو سکون حاصل ہوجائے۔(حوالہ مذکورہ:5/535)
نیزفرماتے ہیں :
’’قصداًغلط سمت  پرنماز ادا کرنا مکروہ ہے ان دونوں کو نمبر۲کی طرح درست کرلینا چاہیے یا جنازہ رکھنے اورصفیں قائم کرنے میں جہت نمبر۲کے موافق انحرف کرلیناچاہئے (حوالہ مذکورہ:3/175)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۲۰/۷/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے