021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوۃ کی مد میں مستحق زکوۃ شخص کو گھر یا فلیٹ دینے کا حکم
82913زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

خلاصہ سوال:  زید کو ان  کے صاحب  (جس کے ہاں  زید نوکری کرتاہے) کے بھائی نے دو کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ زکوۃ کی  مد میں دیا ہے۔زید خود ایک ملازم شخص ہے جس کی   ماہانہ آمدن مبلغ  30000ہے۔ زید کا اپنا کوئی ذاتی گھریا مکان نہیں ہے۔زید اپنے والد صاحب کے گھر پہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتاہے۔یہ مکان والد صاحب کی ملکیت  ہے۔

زید کی اہلیہ صاحب نصاب ہے۔ زید کی اہلیہ کے پاس مہر اور کچھ رقم ہے جس سے زید کی اہلیہ پر زکوۃ فرض ہے۔ زید کی اہلیہ کے پاس جو مال ہے اس  نےوہ اپنی مرضی اوراپنے  بھائیوں کے مشورے سے کسی جگہ لگایاہوا ہے۔لیکن وہ رقم اتنی نہیں ہے کہ اس سے کوئی گھر یا فلیٹ خریدا جاسکے۔اور اس کا حساب بھی زیدنہیں لیتا اور نہ ہی پوچھتاہے۔کل لگائی گئی رقم نو لاکھ( 900000 )روپے ہے۔

(الف)۔  اب مسئلہ یہ معلوم کرناہے کہ زید کو  زید کے مالک کا بھائی زکوۃ کی مد میں  جوفلیٹ دے رہاہے تو کیا زید کا یہ فلیٹ لینا جائز ہے؟  کیا  زید کو فلیٹ دینے سے زید کے مالک کے  بھائی کی زکوۃ ادا ہوجائے گی؟

 (ب)۔    یا  وہ شخص زید کو یکمشت ایک بڑی رقم زکوۃ کی مد میں دے دے، تاکہ زید کوئی جگہ خرید سکے یا کوئی کاروبار شروع کرے۔

زید نے یہ مسئلہ ایک مفتی صاحب سے معلوم کیا تو مفتی صاحب نے بتایا زید کا زکوۃ  کے طور پرفلیٹ لینا جائزہے اور زید کے مالک کے بھائی کی زکوۃ ادا ہوجائیگی،کیونکہ شوہر کی ملکیت الگ ہوتی ہے اور بیوی کی ملکیت الگ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بیوی کی مہر زیادہ ہونے کی صورت میں اگر بیوی صاحب نصاب ہوجاتی ہے زکوۃ کی ادائیگی بیوی پر فرض ہوجاتی ہے نہ کہ شوہر پر، البتہ کمانے والا شوہر ہوتاہے تو شوہر کا احسان ہے کہ وہ بیوی کی زکوۃ کی رقم بیوی کو دیتاہے تاکہ وہ زکوۃ ادا کرے اور گناہ گار نہ ہو اور اگر شوہر بیوی کو زکوۃ کی ادائیگی کے لئے رقم نہ دے تو بیوی پر واجب ہے کہ وہ اپنے مہر میں سے  کچھ سونا بیچ کر زکوۃ ادا کرے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

            مستحقِ زکوۃ شخص کو  جس طرح زکوۃ کی رقم نقد صورت میں دینا  جائز ہے ، اسی طرح زکوۃ کی رقم سے  گھر یا فلیٹ خرید کر اس کو مالک بناکر  زکوۃ کی مد میں دینا بھی جائز ہے،  بشرطیکہ گھر یا فلیٹ مستحق کے قبضہ میں دے دے۔

(الف)۔   لہذا صورت مسئولہ میں اگر زید واقعتا زکوۃ کا مستحق ہے یعنی اس کی ملکیت  میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم  یا مال تجارت  نہیں ہے  تو ایسے شخص کو زکوۃ کی مد میں گھر یا فلیٹ دینا  جائز ہے بشرطیکہ مستحق کی ملکیت اور قبضہ  میں دیا جائے اور اسے مکمل طور پر مالکانہ تصرف حاصل ہو۔  اس عمل سے زکوۃ دینے والے کی زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی ۔ مفتی صاحب نے جو بات کہی ہے وہ شرعا درست ہے۔

(ب)۔     اگر زکوۃ دینے والاشخص مستحق ِزکوۃ کو  یکمشت بڑی رقم زکوۃ کی مد میں دے دے تو اس سے بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی اگرچہ وہ رقم نصاب سے بڑھ جائے۔ تاہم اس قدر رقم فقیر کو یکمشت دینا جس سے اس پر زکوۃ واجب ہوجائے، مکروہ ہے، لیکن اس لیے اگر رقم دینی ہو تو وہ شخص  پہلے گھر کا سودا کرلے پھر اس کو رقم دی جائے تاکہ اس پر زکوۃ لازم نہ ہو۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 344):
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).....وفی ردالمحتار:(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي .
الفتاوى الهندية (1/ 170):
أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى -.
الفتاوى الهندية (1/ 187):
(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير.

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

 22رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے