021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کے علاج کا خرچہ شوہر پر لازم ہے یا نہیں؟
82942نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

 بیوی کی بیماری کا خرچہ، حمل اور اس کی پیچیدگیوں کا خرچہ اور یہ کہ وہ خود اپنی بیماری پر خرچہ کرے؟ بیوی کی کن بیماریوں کے علاج کا خرچہ شوہر پر ہے اور کن کا نہیں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حمل سے متعلقہ علاج اور بچے کی پیدائش پر آنے والے اخراجات شوہر پر لازم ہیں۔ (أیضاً فتاویٰ دار العلوم دیوبند:11/89)

حمل اور بچے کی پیدائش کے علاوہ دیگر بیماریوں کے بارے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا خرچہ شوہر پر لازم نہیں، لیکن موجودہ دور کے عرف،  بیماریوں کی کثرت اور ان کے علاج پر آنے والے اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات اس اطلاق کے ساتھ بعید معلوم ہوتی ہے، اس دور میں صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بقدرِ استطاعت علاج کو بھی شوہر پر واجب نان نفقہ میں شامل کیا جائے، جس کی چند وجوہات درجِ ذیل ہیں:

  1. خاتون عموماً شادی کے بعد شوہر اور بچوں کی خدمت میں مصروف ہوتی ہے، ایسے میں اگر وہ بیمار ہو اور علاج کا خرچہ شوہر پر لازم نہ ہو تو یہ بہت بڑے حرج اور ناقابلِ برداشت تکلیف کا سبب ہوگا، جبکہ قرآنِ کریم اور احادیثِ کریمہ میں بیوی کے ساتھ معاشرت بالمعروف اور حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، اور بیماری کے وقت اس کا علاج نہ کرنا حسنِ سلوک کے خلاف ہے۔  
  2. شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونے کا سبب بیوی کا اس کے گھر میں محبوس رہنا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ بیوی کے علاج کا خرچ بھی شوہر پر لازم ہو۔
  3. علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ فتح القدیر میں "نفقہ" کی تعریف لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: "وفي الشرع: الإدرار على الشيء بما به بقاؤه"  یعنی شریعت کی اصطلاح میں نفقہ کسی کو وہ کچھ فراہم کرنا ہے جس پر اس کی بقاء کا دار و مدار ہو، اور انسانی زندگی کی بقاء اور تحفظ کا تعلق جیسے کھانے پینے سے ہے، اسی طرح علاج سے بھی ہے۔  
  4. مضارِب اگر تجارت کے لیے سفر پر جائے تو ظاہر الروایۃ کے مطابق وہ علاج کا خرچہ مالِ مضاربت سے نہیں لے سکتا، لیکن امام حسن بنِ زیاد رحمہ اللہ کی ایک روایت میں علاج کا خرچہ بھی مالِ مضاربت لے سکتا ہے؛ کیونکہ اس نے اپنے آپ کو رب المال کی تجارت کے لیے فارغ کیا ہے اور اسی کے لیے سفر پر گیا ہے۔ اس مسئلے کی روشنی میں بیوی کے علاج کا خرچہ بدرجۂ اولیٰ شوہر پر لازم ہونا چاہیے، کیونکہ مضارِب کچھ مدت کے لیے سفر میں جاتا ہے، جبکہ بیوی مستقل اپنے آپ کو شوہر کے لیے فارغ کر کے اس کے گھر میں محبوس رہتی ہے۔  

جہاں تک فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ان عبارات کا تعلق ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کا خرچہ شوہر پر لازم نہیں تو اس کی بنیاد بظاہر ان کے زمانے کا عرف، معیارِ صحت اور علاج کی ضرورت کم پیش آنا ہے، اس زمانے میں صحتیں اچھی ہونے کی وجہ سے علاج کی ضرورت زیادہ پیش نہیں آتی تھی، اس لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس کو واجب نفقہ میں شامل نہیں کیا۔

اس بات کی تائید علامہ سرخسی رحمہ اللہ کی ان عبارات سے ہوتی ہے جن میں انہوں نے مضارِب کو نان نفقہ کے باب میں بیوی پر قیاس کیا ہے اور پھر مضارِب کے علاج کا خرچہ رب المال پر لازم نہ ہونے کی وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ علاج کی ضرورت نادر اور کم پڑتی ہے؛ اس لیے یہ بنیادی ضروریات میں شامل نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر علاج کی ضرورت نادر نہ ہو، بلکہ بہ کثرت ہو تو پھر اس کا خرچہ بھی نفقہ میں شامل ہوگا۔  

اسی طرح علامہ سرخسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مضارِب کے لیے سفر میں تیل (دهن) کا خرچہ مالِ مضاربت سے لینے کے جواز اور عدمِ جواز میں شیخین رحمہما اللہ تعالیٰ اور امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے اختلاف کو بھی عرف، ضرورت اور علاقوں کے اختلاف پر محمول کیا ہے۔ ان دونوں مسائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ دور میں علاج کی ضرورت جس کثرت سے پڑتی ہے اور عرف میں علاج کے خرچے کو جس طرح نان نفقہ میں شامل سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ سے اب بقدرِ استطاعت علاج کا خرچہ بھی شوہر پر لازم ہوگا اور واجب نان نفقہ میں شامل ہوگا۔  

شوہر پر بیوی کے علاج کا خرچہ واجب ہونے کا قول بعض فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ تعالیٰ سے بھی منقول ہے۔ معاصر علمائے کرام میں سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فتاویٰ عثمانی:2/491 پر اس مسئلے کو قابلِ غور قرار دیا ہے، جبکہ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے مباحثِ فقہیہ، صفحہ:306 تا 308، شیخ وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ تعالیٰ نے الفقہ الاسلامی وادلتہ:10/110 اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے کتاب الفتاوی:6/341 پر علاج کا خرچہ شوہر پر لازم قرار دیا ہے۔ جامعہ دار العلوم کراچی سے جاری شدہ فتویٰ نمبر:2231/25 میں بھی موجودہ دور کے عرف اور ضرورت کی بنیاد پر بقدرِ استطاعت  علاج کے خرچ کو نان نفقہ میں شامل قرار دیا گیا ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (21/ 193):
 نفقة الزوجة على الزوج وأجرة الطبيب وثمن الدواء إذا مرضت عليها في مالها، لا شيء على الزوج من ذلك.
المبسوط للسرخسي (22/ 113)
وهو بمنزلة الشريك والشريك إذا سافر بمال الشركة فنفقته في ذلك المال وهو مروي عن محمد رحمه الله فالمضارب كذلك وهذا لأنه فرغ نفسه عن أشغاله لأجل مال المضاربة فهو كالمرأة إذا فرغت نفسها لزوجها بالمقام في بيته، فأما في المصر فما فرغ نفسه لمال المضاربة، فلا يستوجب نفقته فيه ونفقته طعامه وكسوته ودهنه وغسل ثيابه وركوبه في سفره إلى المصر الذي أتاه بالمعروف على قدر نفقة مثله؛ لأن هذا كله مما لا بد منه في السفر.
وفي النوادر عن أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله أن دهنه ليس من جملة النفقة، وكأنهما أرادا به في الموضع الذي لا يحتاج فيه إلى استعمال الدهن عادة، فتكون الحاجة إليه نادرة، والثابت عرفا لايثبت فيما هو نادر، ومراد محمد رحمه الله إذا سافر إلى المواضع التي يحتاج فيها إلى استعمال الدهن عادة، وذلك في ديار الحجاز والعراق. ثم المستحق نفقة المثل وهو المعروف كما في نفقة الزوجة…… فأما الدواء والحجامة والكحل ونحو ذلك ففي ماله خاصة دون مال المضاربة، وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله أن ذلك كله في مال المضاربة؛ لأن مال المضاربة مدة سفره في حاجته كمال نفسه، فكما إنه يصرف مال نفسه في هذه الأشياء كما يصرف في النفقة، فكذلك مال المضاربة. وجه ظاهر الرواية إنه إنما يستوجب النفقة في مال المضاربة وثمن الدواء وأجرة الحجام وما يحتاج إليه من العلاج ليس من النفقة. ألا ترى أن الزوجة لا تستحق شيئا من ذلك على زوجها بخلاف النفقة. ثم الحاجة إلى هذه الأشياء غير معتادة بل هي نادرة، والنادر لا يستحق بطريق العادة.
فتح القدير (4/ 378):
 باب النفقة: النفقة مشتقة من النفوق وهو الهلاك، نفقت الدابة تفوقا هلكت، أو من النفاق وهو الرواج، نفقت السلعة نفاقا راجت، وذكر الزمخشري أن كل ما فاؤه نون وعينه فاء يدل على معنى الخروج والذهاب، مثل نفق ونفر ونفخ ونفس ونفي ونفذ. وفي الشرع: الإدرار على الشيء بما به بقاؤه.
الدر المختار (3/ 579-575):
وفي الخانية مرضت عند الزوج فانتقلت لدار أبيها إن لم يمكن نقلها بمحفة ونحوها فلها النفقة وإلا لا، كما لا يلزمه مداواتها……………..وفيه: أجرة القابلة على من استأجرها من زوجة وزوج، ولو جاءت بلا استئجار قيل: عليه، وقيل: عليها.
رد المحتار (3/ 580-575):
قوله (كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة، هندية عن السراج، والظاهر أن منها ما تستعمله النفساء مما يزيل الكلف ونحوه، وأما أجرة القابلة فسيأتي الكلام عليها………………قوله ( قيل عليه الخ ) عبارة البحر عن الخلاصة: فلقائل أن يقول: عليه؛ لأنه مؤنة الجماع، ولقائل أن يقول: عليها كأجرة الطبيب اه. وكذا ذكر غيره، ومقتضاه أنه قياس ذو وجهين لم يجزم أحد من المشايخ بأحدهما خلاف ما يفهمه كلام الشارح، ويظهر لي ترجيح الأول؛ لأن نفع القابلة معظمه يعود إلى الولد فيكون على أبيه، تأمل.
منح الجليل (4/ 392):
و لا يفرض دواء ولا حجامة ولا أجرة طبيب ابن عرفة ابن حبيب ليس عليه أجر الحجامة ولا الطبيب ونحوه قول أبي حفص بن العطار يلزمه أن يداويها بقدر ما كان لها من نفقة صحتها لا أزيد ابن زرقون في نفقات ابن رشيق عن ابن عبد الحكم عليه أجر الطبيب والمداواة.
الفقه الإسلامي وأدلته (10/ 110):
نفقات العلاج: قرر فقهاء المذاهب الأربعة أن الزوج لا يجب عليه أجور التداوي للمرأة المريضة من أجرة طبيب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تكون النفقة في مالها إن كان لها مال، وإن لم يكن لها مال، وجبت النفقة على من تلزمه نفقتها؛ لأن التداوي لحفظ أصل الجسم، فلا يجب على مستحق المنفعة، كعمارة الدار المستأجرة، تجب على المالك لا على المستأجر، وكما لا تجب الفاكهة لغير أدم.
ويظهر لدي أن المداواة لم تكن في الماضي حاجة أساسية، فلا يحتاج الإنسان غالباً إلى العلاج؛ لأنه يلتزم قواعد الصحة والوقاية، فاجتهاد الفقهاء مبني على عرف قائم في عصرهم. أما الآن فقد أصبحت الحاجة إلی العلاج کالحاجة إلی الطعام والغذاء، بل أهم؛ لأن المریض يفضل غالباً ما يتداوى به على كل شيء، وهل يمكنه تناول الطعام وهو يشكو ويتوجع من الآلام والأوجاع التي تبرح به وتجهده وتهدده بالموت؟! لذا فإني أرى وجوب نفقة الدواء على الزوج كغيرها من النفقات الضرورية، ومثل وجوب نفقة الدواء اللازم للولد على الوالد بالإجماع، وهل من حسن العشرة أن يستمتع الزوج بزوجته حال الصحة، ثم يردها إلى أهلها لمعالجتها حال المرض؟!.وأخذ القانون المصري (م100) لسنة 1985م برأي في الفقه المالكي أن النفقة الواجبة للزوجة تشمل الغذاء والكسوة والمسكن ومصاريف العلاج وغير ذلك بمايقضي به الشرع، وأخذت المحاكم بهذا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     22/رجب المرجب/1445ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے