021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم بچوں کے مال پر ولایت اور ان کے نان نفقہ کا حکم
83045نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا، اس کے تین چھوٹے بچے ہیں، ایک لڑکا اور دو لڑکیاں، تینوں نابالغ ہیں۔ اس عورت نے دوسری شادی کرلی ہے اور بچے اسی کے پاس ہیں۔ اس عورت کو تو اس کے شوہر کی میراث میں سے حصہ دیا گیا، لیکن بچوں کا حصہ ان کا چچا کہہ رہا ہے میں ان کے بالغ ہونے کے دوں گا۔ بچوں کی والدہ کا مطالبہ ہے کہ ان کا مکمل حصہ بلوغت کے بعد دیا جائے، لیکن ہر ماہ ان کی پرورش کے لیے کچھ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی والدہ نے کہا کہ ان کی یہ رقم بینک میں رکھوادیں، تاکہ جو منافع آئے وہ ان کے ماہانہ خرچے میں صرف ہو، لیکن چچا نے کہا کہ بینک میں نفع نقصان دونوں ہوسکتا ہے، اس لیے آپ کو بچوں کا خرچہ چاہیے، میں اپنے ایک گھر کا کرایہ ان کے خرچے کے لیے دوں گا ، ان کی رقم میرے پاس رہے گی جو میں ان کو بلوغت کے بعد دیدوں گا۔ مرحوم کا انتقال اچانک ہوا تھا، اس نے اپنے بچوں کے مال کے حوالے سے کسی کو کوئی وصیت نہیں کی، نیز ان بچوں کا دادا بھی فوت ہوچکا ہے، چچا البتہ اور بھی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ چچا بچوں کی رقم اپنے پاس بطورِ امانت رکھے اور اپنے گھر کا کرایہ بطورِ احسان ان کو خرچے کے لیے دے تو یہ کیسا ہے؟ اور اگر یہ چچا بچوں کی رقم اپنے استعمال میں لائے یا کاروبار میں لگانا چاہے تو اس کی اجازت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ یتیموں کے مال میں ولایت اور تصرف کا حق چونکہ ان کے والد کے وصی (جس کو والد نے اپنے بچوں کے مال میں تصرفات کی وصیت کی ہو)، دادا، دادا کے وصی اور یا پھر قاضی کو حاصل ہوتا ہے، جبکہ یہاں پر ان میں سے کوئی نہیں اور موجودہ دور میں ایسے مسائل کے لیے قاضی کے پاس جانا بظاہر مشکل ہوتا ہے؛ اس لیے اگر چند نیک، بااعتماد، سمجھ دار اور امانت دار مسلمان اس چچا کو یا کسی دوسرے مناسب شخص کو ان یتیموں کا مال محفوظ رکھنے کی غرض سے دے تو اس کے لیے وہ مال بطورِ حفاظت اپنے پاس رکھنا جائز ہوگا، اگر بچوں کے نان نفقہ کا کوئی اور انتظام نہ ہو تو بقدرِ ضرورت نان نفقہ اس رقم سے کیا جاسکتا ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ان یتیم بچوں کا یہ چچا ان کے ماہانہ خرچے کے لیے اپنے گھر کا کرایہ بطورِ احسان دیتا ہے تو یہ شرعا جائز، بلکہ کارِ ثواب ہے، لیکن اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بچوں کا مال اپنے کاروبار میں لگائے یا کسی اور استعمال میں لائے۔ اگر بچوں کا چچا بچوں کی یہ رقم اپنے لیے استعمال کرنا چاہتا ہو یا کسی دوسرے خطرے کے پیشِ نظر اس کے پاس رقم کا محفوظ رہنا مشکل ہو تو پھر یہ رقم کسی غیر سودی بینک کے سیونگ یا کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی جائے؛ تاکہ محفوظ بھی رہے اور بوقتِ ضرورت آسانی سے بینک سے واپس بھی لی جاسکے۔

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 52):
الولي هو الذي يحق له التصرف في مال الغير بدون استحصال إذن برضاء صاحب المال، وهذا بعكس الوكيل، فالوكيل وإن تصرف في مال الغير، فتصرفه مقرون برضاء صاحب المال.
الدر المختار (3/ 76):
( الوالي في النكاح ) لا المال ( العصبة بنفسه ) وهو من يتصل بالميت حتى المعتقة ( بلا توسطة أنثى ) بيان لما قبله ( على ترتيب الإرث والحجب ).
رد المحتار (3/ 76):
قوله ( لا المال ) فإنه الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط، ح.
شرح مختصر الخليل للخرشي(4/ 198):
وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك، وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل.
الفتاوى الهندية (6/ 147):
قال: وللوصي أن يتجر بمال اليتيم في المبسوط، ولا يجوز للوصي أن يتجر لنفسه بمال اليتيم أو الميت، فإن فعل وربح يضمن رأس المال ويتصدق بالربح في قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى، كذا في فتاوى قاضي خان.  للوصي أن يدفع مال الصغير مضاربة وأن يشارك به غيره وأن يبضعه، كذا في المحيط.
حاشية ابن عابدين (5/ 417):
مطلب: للقاضي إقراض مال اليتيم ونحوه  قوله ( يقرض القاضي الخ ) أي يستحب له ذلك؛ لأنه  لكثرة أشغاله لايمكنه أن يباشر الحفظ بنفسه، والدفع بالقرض أنظر لليتيم؛ لكونه مضمونًا،
والوديعة أمانة. وينبغي له أن يتفقد أحوال المستقرضين، حتى لو اختل أحدهم أخذ منه المال، وتمامه في البحر.  وليس للقاضي أن يستقرض ذلك لنفسه، ط عن الهندية.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     25/رجب المرجب/1445ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے