021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گرین فائنانسنگ سے متعلق ریسرچ کا حکم
83160علم کا بیانعلم کے متفرق مسائل کابیان

سوال

السلام علیکم!

میں نے یونیورسٹی میں بینکوں پر ریسرچ کی تھی، اور وہ پبلیش بھی ہوچکی ہے، جس کا لنک یہ ہے:https://irmbrjournal.com/paper_details.php?id=1066 آپ مہربانی کرکے اس کا اپسٹریکٹ یعنی خلاصہ دیکھنے کے بعد بتایئے کہ اس پر میں کوئی گناہ کا مرتکب تو نہیں ہوا ہوں، یا میں نے کوئی بینکوں کے ساتھ تعاون تو نہیں کیا، کیونکہ میں نے Conventional اور اسلامک دونوں بینکوں پر  ریسرچ کی تھی۔ براہ کرم اس کا جواب ضرور دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہےکہ جو ریسرچ  جائزاور ناجائز  دونوں طرح کےامور کا ذریعہ بن سکتی ہو،  ایسی ریسرچ کرنا جائز ہے،بشرطیکہ ریسرچر  کا مقصد   ناجائز امور کےلیے ریسرچ کرنا  نہ  ہو اور ریسرچ کرتے وقت اس بات کا    یقین یا غالب گمان بھی  نہ ہو کہ اس  کو صرف ناجائز امور کا ذریعہ بنایا جائے گا۔لہذا صورت مسؤلہ میں گرین فائنانسنگ کےفوائد پر تحقیق کرکے بینکو ں کو اس کی طرف متوجہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا،کیونکہ یہ ریسرچ سودی اور اسلامی بینک دونوں کےلیے  یکساں مفید ہےاور دونوں قسم کے بینک اس میدان میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

البتہ اس عمومی مقصد کےحصول کےلیےالفاظ بھی عام استعمال کریں ۔جس کی تفصیل یہ ہےکہ  بینکوں کواس طرف راغب کرنے  کےلیے آپ نےجگہ جگہ گرین لون  کا  لفظ استعمال کیا ہے،  اس کو گرین فائنانسنگ کے لفظ سے تبدیل کریں۔ کیونکہ بینکوں کے تناظر میں لون سے مطلب سودی قرض ہوتا ہے،تو گویا کہ آپ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر قابو پانےکےلیے بینکوں کو سودی قرض دینے کی ترغیب دے رہے ہو جو کہ جائز نہیں ،اس  کےبرعکس فائنانسنگ کا  لفظ اسلامی اور غیر اسلامی دونوں قسم کے ماڈل کو شامل ہے،  اس لیے یہ لفظ استعمال کریں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية  2/285)):
ويكره بيع السلاح من أهل الفتنة في عساكرهم، ولا بأس ببيعه بالكوفة ممن لم يدر أنه من أهل الفتنة، وهذا في نفس السلاح، فأما ما لا يقاتل به إلا بصنعة كالحديد فلا بأس به كذا في الكافي.
الفتاوى الهندية(4/450):
وإذا استأجر الذمي مسلما ليحمل له ميتة أودما يجوز عندهم جميعا ولو استأجر ذمي من ذمي بيتا يصلي فيه لا يجوز ولو استأجر مسلما ليرعى له الخنازير يجب أن يكون على الخلاف كما في الخمر ولو استأجره ليبيع له ميتة لم يجز هكذا في الذخيرة.
فقہ البيوع(1/311):
والقسم الثالث: ما وضع لأغراض عامة، ويمكن استعماله في حالته الموجودة في مباح أو غيره۔۔۔والظاهر من مذهب الحنفية أنهم يُجيزون بيع هذا القسم، وإن كان معظم منافعه محرماً، ولذلك أجازوا بيع الدهن المتنجس، قال الحصكفي في الدر المختار: ونجيز بيع الدهن المتنجس، والانتفاع به الأكل، بخلاف الودك۔۔۔۔. أما الإثم، فيتأتى فيه ما ذكرناه في شروط العاقد من أنه إذا كان يقصد به معصية، بائعا أو مشترياً، فالبيع يكره تحريماً، وذلك إما بنية في القلب، أو بالتصريح في العقد أن البيع يُقصد به محظور، أما إذا خلا العقد من الأمرين، ولا يعلم البائع بيقين أن المشتري يستعمله في محظور، فلا إثم في بيعه۔

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

2/شعبان/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے