021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں کی تاخیر سے ادائیگی پر مالی جرمانہ لگانے اور دینے کا حکم
83172سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

 ایک زیر تعمیر بلڈنگ میں  ہم نے ایک اپارٹمنٹ  قسطوں پر لیا تھا،جس کی پیمنٹ  قسط وار تقریبا پانچ سال میں پوری کرنی ہے ۔ہر مہینے  کی ایک مقررہ قسط ہے جو کہ ہر ماہ کی ۱۵  تاریخ تک جمع کروانی ہوتی ہے۔ اور ڈیویلپر ہر ماہ کچھ نہ کچھ تعمیری کام کرتا جاتا ہے۔

ہم نے جس وقت اپارٹمنٹ لینے کی ایگریمنٹ  کی  تھی ، اس وقت ہمیں یہ  تومعلوم تھا کہ بکنگ کی شرئط و ضوابط  میں ایک شرط قسط کی تاخیر سے ادائیگی پر جرمانے کی بھی ہے  لیکن ہمارے علم میں یہ بات نہ تھی کسی ایک قسط کی تاخیر سے ادائیگی پر جرمانے کی شرط لگانا  اور جرمانہ ادا کرنا شرعا جائز  نہیں ہے اوراسی لاعلمی و کچھ اپنے تحفظات(مثلا زیادہ بارش کی وجہ سے ڈویلپر نے اس وقت کام روکا ہوا تھا) کی بنیاد پر ہم نے چند قسطیں احتیاط کے پیش نظر روک کر ادا نہیں کی تھیں۔  جس کی وجہ سے ڈیویلپر نے ایگریمنٹ کے مطابق  ہم پر جرمانہ عائد کردیا  تھا،جو ماہانہ ہر قسط کا1.5  (ڈیڑھ فیصد )  فیصد ہے ہم نے ڈیویلپرسے اس حوالےسےبات کی لیکن وہ جرمانے کی رقم چھوڑنے پر راضی نہیں ہے بلکہ اب وہ واجب الاداء جرمانے  ادا نہ کرنے کی وجہ سے  یونٹ بکنگ منسوخ  کرنے کا  کہہ رہا ہے جس پر ہمیں خاصہ نقصان اٹھانا پڑے گا ۔واجب الاداء  اقساط تو ہم نے ادا کردی ہیں اوران سے  آئندہ اقساط کو بروقت ادا کرنے کا پکا وعدہ بھی کیا ہے   لیکن  واجب الاداء جرمانے ابھی تک ادا نہیں کیے ہیں ۔ براہ کرم اس حوالے سے ہماری رہنمائی کیجئے گا کہ ایسی صورت میں ہم کون سا  جائز راستہ اختیار کریں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اپارٹمنٹ کی خرید و فروخت اور  بکنگ  کا عقد فقہی لحاظ سے استصناع (آرڈر پر چیز تیار کروانا) ہے ، جس میں ڈیلویلپر کی شرعی حیثیت صانع (آرڈر پر چیزبنانے والا) اور کسٹمر کی حیثیت مستصنع ( آرڈر پر چیز تیار کروانے والا) کی ہوتی ہے ۔ عقد استصناع میں شے مصنوع (جو چیز آرڈر پر تیار کی جاتی ہو) کی قیمت پیشگی ، ادھار اور قسط وار ہر طرح سے ادا کرنا جائز ہے ،  اور یہ بھی جائز ہے  کہ ثمن کی قسطیں شے مصنوع کی تکمیل کے مختلف مراحل کے ساتھ مربوط ہوں ، بشرطیکہ وہ مراحل لوگوں کے عرف اور مارکیٹ میں  طے شدہ ہوں ۔

 عقد استصناع میں دیگر شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کسٹمر کی طرف سے کسی قسط کی  ادائیگی میں تاخیر یا کم ادا کرنے کی صورت میں اصل قسط  میں بطور جرمانہ اضافہ کرنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو ، لہذا صورت مسئولہ میں اپارٹمنٹ کی بکنگ میں  کسٹمر کی طرف سے کسی قسط کی  ادائیگی  میں  بلا شرعی عذر(مثلا مقروض یا تنگدستی )کے تاخیر کرنا  شرعا جائز نہیں، اور اب تک جو جرمانے  عائد کیے  گئے ہیں ،  وہ سود  ہے ، اگر آپ کا ڈیویلپر واقعتا اس رقم کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہے اور اس سے جان خلاصی کی کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے تو  فورا  جرمانے کی رقم کی  ادا   کرکے اپنے ذمہ سے فارغ ہوجائے، اور اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ اگلی قسطوں کی ادائیگی میں بھرپور  کوشش  کرے کہ کوئی بھی قسط تاخیر سے ادا نہ ہو اور عملا بھی ہر قسط کی بروقت ادائیگی کا التزام  کرے تاکہ جرمانہ (سود) کے گناہ سے بچ سکے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61):
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.
فقہ البیوع (1/059):
أحكام ثمن الاستصناع:
1 ۔ يجب أن يكون ثمن الاستصناع معلوماً عند إبرام العقد.
2- يجوز أن يكون الثمن معجلاً كما في السلم، بل يجوز أن يكون معجلاً أو مؤجلاً أو مقسطاً، ويجوز أيضاً أن تكون أقساط الثمن مرتبطة بالمراحل المختلفة لإنجاز المشروع، إذا كانت تلك المراحل منضبطةفي العرف، بحيث لا ينشأ فيها نزاع۔
( بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ1/15)
ومما یجب التنبیه علیه هنا: أن ما ذکر من جواز هذا البیع إنما هو منصرف إلی زیادة في الثمن نفسه، أما ما یفعله بعض الناس من تحدید ثمن البضاعة علی أساس سعر النقد و ذکر القدر الزائد علی أساس أنه جزء من فوائد التأخیر في الأداء، فإنه ربا صراح. وهذا مثل ان یقول البائع: بعتك هذه البضاعة بثماني ربیات نقدا، فإن تأخرت في الأداء إلی مدة شهر فعلیك ربیتان علاوة علی الثمانیة، سواء سماها فائدة (Interest) أو لا؛ فإنه لا شك في کونه معاملة ربویة؛ لأن ثمن البضاعة إنما تقرر کونه ثمانیة، وصارت هذه الثمانیة دینا في ذمة المشتري، فما یتقاضی علیه البائع من الزیادة فإنه ربا لا غیر

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

03/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے