021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد تعمیر کرنے سے پہلے وقف شدہ جگہ کوتبدیل کرنے کا حکم
83162وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک مولانا صاحب کے گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا، انہوں نے گاؤں سے ملحقہ  کالونی میں مدرسے کے لئے 22 مرلہ پر مشتمل  جگہ قسطوں پر خریدی ،کالونی والوں نے 5 مرلہ زمین مسجد کے لئے دی ہےاور کالونی والوں نے وہ 5 مرلہ زمین بلدیہ میں مسجد کے نام وقف بھی کروا دی ہے اور اس 5 مرلہ  زمین میں وقف کی نیت کر کے مولانا صاحب کے حوالے کر کے قبضہ بھی دے دیا ہے ، مولانا صاحب نے 5 مرلہ اپنی طرف سے خرید کر دس مرلہ مسجد کی بنیادیں نقشے کے مطابق  بھر دی  ہیں اور بھرتی ڈال کر جگہ برابر کر دی ہے۔

یاد رہے کہ مولانا صاحب نے جو 22 مرلہ زمین خریدی ہے وہ اس 5 مرلہ زمین کے ساتھ ہی ملتی ہے جو کالونی والوں نے مسجد کے لئے وقف کی ہے، لیکن اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ مسجد کا صرف ہال ہے،باقی  نہ برآمدہ بچتا ہے اور نہ صحن ،اس جگہ کے دائیں اور بائیں روڈ ہیں، جس کی وجہ سے دائیں بائیں توسیع نہیں ہو سکتی، مشرق کی جانب پارک ہے، ادھر بھی توسیع نہیں ہو سکتی، اس لیےمولانا صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ہم مسجد آگے کی طرف لے آئیں؛ تاکہ ہمیں مسجد کا صحن وغیرہ مل سکے اوراس مقصد کے لیے مسجد کی جگہ کا مدرسہ کی جگہ سے تبادلہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا شرعی طور پر اسمیں کوئی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں؟قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں، جبکہ ابھی مسجد والی جگہ میں نماز وغیرہ شروع نہیں کی ہے۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ مستقبل میں سوسائٹی اور طلباء کی ضرورت کے پیشِ نظر مسجد کی توسیع  کی ضرورت ہو گی، جبکہ اس جگہ پر مسجد بنانے میں توسیع ممکن نہیں۔ نیز اس جگہ کے نیچے تہہ خانہ بھی اب نہیں بنایا جا سکتا، جبکہ آگے کی طرف لے جانے کی صورت میں ہم نیچے تہہ خانہ بھی بنا سکتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کوئی جگہ مسجد کے لیے وقف کر دی جائے تو اس کے شرعاً وقف ہونے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے، حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک صرف زبانی یا تحریری طور پر جگہ وقف کرنے سے وہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہو جاتی ہے، اگرچہ ابھی اس پر شرعی مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، لیکن وقف تام ہونے کی وجہ سے  اس جگہ کو بیچنا یا تبدیل کرنا شرعاً جائز نہیں۔ اور فتوی بھی اسی قول پر ہے۔ البتہ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ کے نزدیک کسی جگہ کے مسجد ہونے کے لیے اس جگہ نماز پڑھنا ضروری ہے، پھر امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کےنزدیک واقف کے علاوہ کسی ایک شخص کا نماز پڑھنا بھی  کافی ہے، جبکہ امام محمد رحمہ اللہ کےنزدیک جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری ہے، اگرچہ دو شخص ہی ہوں۔

لہذا بہتر تویہی ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کےموقف پر عمل کرتے ہوئےسوسائٹی والوں سے بات چیت  کر کے سامنے مشرقی جانب کچھ مزید جگہ ہبہ یا خریداری کے طور پر لے لی جائے، تاکہ مسجد کا برآمدہ اور صحن بنایا جا سکے اور پھر اس کے بعد مدرسہ بنا لیا جائے۔لیکن اگر بالفرض کسی بھی جانب جگہ کا ملنا مشکل ہو اور سوسائٹی کے لیے یہ مسجد چھوٹی ہو تو صحن اور برآمدہ بنانے کی  ضرورت (کیونکہ صحن اور برآمدہ کے بغیر گرمی کے موسم میں ہال میں نماز پڑھنا سخت پریشانی کا باعث ہوتا ہے، نیز اس میں مسجد کی توسیع بھی ہو جائے گی)کے پیشِ نظر حضرت امام ابوحنفیہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے موقف پر عمل کرنے کی گنجائش ہے اورسوسائٹی سے اجازت لے کر مسجد کی جگہ کو مدرسہ سے تبدیل کرسکتے ہیں، کیونکہ ان حضرات کے موقف کے مطابق ابھی وقف تام نہیں ہوا ۔

نوٹ: فتاوی دارالعلوم دیوبند(388/13) میں بوقتِ ضرورت مسجد کی زمین کے استبدال کی اجازت دی گئی ہے، اسی طرح فتاوی محمودیہ (14/461) میں مسجد کی زمین غصب ہونے کی صورت میں متولی کے لیےغاصب سے اس کےعوض رقم لے کر دوسری جگہ خریدنے کی اجازت دی گئی ہے، نیز مسجد کے علاوہ اگر کوئی وقف ناقابلِ انتفاع ہو جائے تو اس کے استبدال کی بھی اجازت دی گئی ہے، لہذا مسجد تعمیر ہونے سے پہلے جب اس کا وقف ہونا ائمہ کرام رحمہم اللہ کے درمیان مختلف فیہ ہے تو بوقتِ ضرورت اس کے استبدال کی بھی گنجائش ہو گی۔

حوالہ جات
اللباب في شرح الكتاب (2/ 186) المكتبة العلمية، بيروت:
(فإذا صلى فيه واحد زال ملكه عند أبي حنيفة ومحمد) في رواية، وفي الأخرى - وهي الأشهر - يشترط الصلاة بالجماعة، لأن المسجد يبنى لذلك، وقال الإمام قاضيخان: وعن أبي حنيفة فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة بالجماعة اثنان فصاعدا كما قال محمد، وفي رواية عنه إذا صلى واحد فإذنه يصير مسجداً! إلا أن بعضهم قال: إذا صلى فيه واحد بأذان وإقامة، وفي ظاهر الرواية لم يذكر هذه الزيادة، والصحيح رواية الحسن عنه، لأن قبض كل شيء وتسليمه يكون بحسب ما يليق به، وذلك في المسجد بأداء الصلاة بالجماعة، أما الواحد فإنه يصلي في كل مكان قال في التصحيح: واستفدنا منه أن ما عن محمد هو رواية عن أبي حنيفة، هو الصحيح، اهـ.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 20) دار احياء التراث العربي – بيروت:
فصل: "وإذا بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن للناس بالصلاة فيه، فإذا صلى فيه واحد زال عند أبي حنيفة عن ملكه" أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به، وأما الصلاة فيه فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد، ويشترط تسليم نوعه، وذلك في المسجد بالصلاة فيه، أو لأنه لما تعذر القبض فقام تحقق المقصود مقامه ثم يكتفى بصلاة الواحد فيه في رواية عن أبي حنيفة، وكذا عن محمد؛ لأن فعل الجنس متعذر فيشترط أدناه. وعن محمد أنه يشترط الصلاة بالجماعة؛ لأن المسجد بني لذلك في الغالب"وقال أبو يوسف: يزول ملكه بقوله جعلته مسجدا" لأن التسليم عنده ليس بشرط؛ لأنه إسقاط لملك العبد فيصير خالصا لله تعالى بسقوط حق العبد وصار كالإعتاق، وقد بيناه من قبل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 384) دار الفكر-بيروت:
(قوله:وجاز جعل غلة الوقف لنفسه إلخ) أي كلها أو بعضها وعند محمد لا يجوز بناء على اشتراطه التسليم إلى متول وقيل هي مسألة مبتدأة أي غير مبنية على ذلك وهو أوجه ويتفرع على الخلاف ما لو وقف على عبيده وإمائه صح عند أبي يوسف لا عند محمد، وأما اشتراط الغلة لمدبريه وأمهات أولاده فالأصح صحته اتفاقا لثبوت حريتهم بموته، فهو كالوقف على الأجانب وثبوته لهم حال حياته تبع لما بعدها، وقيد بجعل الغلة لنفسه لأنه لو وقف على نفسه قيل: لا يجوز وعن أبي يوسف: جوازه وهو المعتمد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 388) دار الفكر-بيروت:
(قوله: إلا في أربع) الأولى: لو شرطه الواقف. الثانية: إذا غصبه غاصب، وأجرى عليه الماء حتى صار بحرا فيضمن القيمة، ويشتري المتولي بها أرضا بدلا: الثالثة: أن يجحده الغاصب ولا بينة أي وأراد دفع القيمة، فللمتولي أخذها ليشتري بها بدلا.
الرابعة: أن يرغب إنسان فيه ببدل أكثر غلة، وأحسن صقعا فيجوز على قول أبي يوسف وعليه الفتوى كما في فتاوى قارئ الهداية قال صاحب النهر في كتابه إجابة السائل قول قارئ الهداية والعمل على قول أبي يوسف معارض مما قاله صدر الشريعة، نحن لا نفتي به وقد شاهدنا في الاستبدال ما لا يعد ويحصى؛ فإن ظلمة القضاة جعلوه حيلة لإبطال أوقاف المسلمين

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

4/ شعبان المعظم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے