021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
’’فقر کا علاج نکاح‘‘ والی حدیث کی تحقیق
83214سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

سوال یہ ہے کہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ ایک شخص آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپﷺ سے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی تو آپﷺ نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا۔ کیا یہ حدیث ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو یہ کس درجہ کی حدیث ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ روایت کو حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ بغداد ‘‘ میں محمد بن احمد بن نصر ترمذی رحمہ اللہ کے حالات بیان کرتے ہوئےنقل کیا ہے، اسی طرح علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے "میزان الاعتدال" میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں سعید بن احمد مدنی کے ترجمہ میں بغیر مکمل سند ذکر کیے اس روایت کو ذکر کیا ہے،[1] اس کے علاوہ  متونِ حدیث کی مستند اور معتبر کتب میں بندہ کو یہ حدیث نہیں ملی، حدیث کی عبارت یہ ہے:

تاريخ بغداد (2/ 233، رقم الترجمة: 307) لأبي بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463ھ) دار الغرب الإسلامي – بيروت:

أخبرنا محمد بن الحسين القطان قال نبأنا عبد الباقي بن قانع قال نبأنا محمد بن أحمد بن نصر الترمذي قال نبأنا إبراهيم بن المنذر قال نبأنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم قال نبأنا محمد بن المنكدر عن جابر. قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج.

روایت کی اسنادی حیثیت:

جہاں تک اس روايت کی اسنادی حیثیت کا تعلق ہے تو تلاش کے باوجود اس کی سند پر ائمہ کرام رحمہم اللہ کا کلام

کہیں نہیں ملا، اس لیےحدیثِ صحیح کی شرائط کی تحقیق کے لیےسب سے پہلے ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں اس روایت کے  راویوں کے احوال کا جائزہ لیا جاتا ہے، مذکورہ روایت کی سند میں  حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ سے لے کر رسول اللہﷺ تک کل سات  راوی ہیں، ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کی روشنی میں ان کے بارے میں تفصیل درج ذیل ہے:

  1. سب سے پہلے راوی محمد بن حسين بن محمد بن فضل بن يعقوب  قطّان رحمہ اللہ ہیں، یہ حافظ ابوبکر خطیب بغدادی اور علامہ بیہقی رحمہما اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں، جن سےخطیب بغدادی رحمہ اللہ نے یہ حدیث روایت کی ہےاورانہوں نے  اس راوی کو "ثقہ" قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں مسند اور ثقہ کا لقب دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی ثقاہت پر اتفاق کیا گیا ہے۔

تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية (2/ 246، الترجمة: 718) دار الكتب العلمية – بيروت:

محمد بن الحسين بن محمد بن الفضل بن يعقوب بن يوسف بن سالم، أبو الحسين الأزرق القطان........... كتبنا عنه وكان ثقة. انتخب عليه محمد بن أبي الفوارس، وهبة الله بن الحسن الطبري. وسألته عن مولده فقال: ولدت في شوال من سنة خمس وثلاثين وثلاثمائة وكان يسكن دار الفطن، وتوفي عند انتصاف الليل من ليلة الاثنين الثالث من شهر رمضان سنة خمس عشرة وأربعمائة.

سير أعلام النبلاء (13/ 89، الترجمة: 3829) الناشر: دار الحديث- القاهرة:

الشيخ العالم الثقة، المسند، أبو الحسين، محمد بن الحسين بن محمد بن الفضل، البغدادي القطان الأزرق. ذكر لأبي بكر الخطيب: أنه ولد في شوال سنة خمس وثلاثين وثلاث مائة........... وحدث عنه: البيهقي، والخطيب، ومحمد بن هبة الله اللالكائي، وأبو عبد الله الثقفي، وجماعة سواهم. وهو مجمع على ثقته. توفي في شهر رمضان سنة خمس عشرة وأربع مائة، عن ثمانين سنة.

  1. سند کے دوسرے راوی ابو الحسن عبد الباقی بن قانع بن مرزوق اموی رحمہ اللہ ہیں، یہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں، ان کی پیدائش دو سو پینسٹھ ہجری (المتوفیٰ:۲۶۵ھ)   اور وفات شوال تین سو اکیاون ہجری (المتوفیٰ:۳۵۱ھ) میں ہوئی، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مشایخ نے ان کو" ثقہ "قرار دیا ہے، اسی طرح علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اہل بغداد کے حوالےسے ان کو "ثقہ" نقل كيا ہے، البتہ آخر عمر میں ان کے حافظہ میں خلط واقع  ہو گیا تھا، لیکن علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ خلط لاحق ہونے کے بعد لوگوں نے ان سے روایات لینا چھوڑی دی تھیں، اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں لکھا ہے کہ خلط کے بعد لوگ ان سے روایت کرنے سے بچتے تھے،  اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ  شاید یہ روایت بھی  خلط سے پہلے کی ہے۔

تذكرة الحفاظ للذهبي (3/ 66 ، رقم الترجمة:851) شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (المتوفى: 748ه) الناشر: دار الكتب العلمية بيروت-لبنان:

عبد الباقي بن قانع بن مرزوق بن واثق الحافظ العالم المصنف أبو الحسين الأموي مولاهم البغدادي صاحب معجم الصحابة: سمع الحارث بن أبي أسامة، إبراهيم بن الهيثم البلدي وإبراهيم الحربي وإسحاق بن الحسن الحربي ومحمد بن مسلمة وإسماعيل بن الفضل البلخي وطبقتهم، وكان واسع الرحلة كثير الحديث، روى عنه الدارقطني وأبو الحسن بن رزقويه وأبو الحسين القطان وأحمد بن علي البادي وأبو علي بن شاذان وأبو القاسم بن بشران وغيرهم؛ قال البرقاني: البغداديون يوثقونه وهو عندي ضعيف، وقال الدارقطني: كان يحفظ ولكنه يخطئ ويصیب. وقال الخطيب: نا الأزهري عن أبي الحسن بن الفرات قال: كان ابن قانع قد حدث به اختلاط قبل أن يموت بنحو من سنتين فترك السماع منه قوم في اختلاطه. قال الخطيب: ولد سنة خمس وستين ومائتين؛ وتوفي في شوال سنة إحدى وخمسين وثلاثمائة.[2]

  1. سند کے تیسرے راوی محمد بن  احمد بن نصر ترمذی ہیں، ان کا شمار مشہورفقہائے شافعیہ میں ہوتا ہے، ان کو حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور بعض دیگر حضرات نے ثقہ قرار دیا ہے، ان کی وفات دو سو پچانوے ہجری (المتوفیٰ:۲۹۵ھ)  میں ہوئی، ان کے بارے میں اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کو بھی آخر عمر میں خلط لاحق ہو گیا تھا، لیکن  حافظ صاحب سے پہلے کے ائمہ کرام رحمہم اللہ حافظ خطیب بغدادی، امام ابن حبان، حافظ جمال الدین مزی اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ وغیرہ جیسے کبار ائمہ کرام رحمہم اللہ نے ان کے خلط کا ذکر نہیں کیا، بلکہ سب حضرات نے ان کی ثقاہت، زہد اور تقوی وغیرہ کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

تاريخ بغداد (1/382، رقم الترجمۃ: 307) دارالکتب العلمیۃ، بیروت:

محمد بن أحمد بن نصر، أبو جعفر الفقيه الشافعي: سكن بغداد وحدث بها عن يحيى بن بكير المصري، ويوسف بن عدى، وإبراهيم بن المنذر الخزامى، ويعقوب بن حميد بن كاسب. روى عنه أحمد بن كامل القاضي، وعبد الباقي بن قانع القاضي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وكان ثقة من أهل العلم والفضل والزهد في الدنيا.

تذكرة الحفاظ  للذهبي (2/ 157):

وفيها توفي شيخ الصوفية أبو الحسن أحمد بن محمد النوري، ومسند بغداد أبو شعيب عبد الله بن الحسن بن أحمد بن أبي شعيب الحراني، وفقيه العراق أبو جعفر محمد بن أحمد بن نصر الترمذي الشافعي عن تسعين سنة.[3]

  1. سند کے چوتھے راوی ابراہیم بن منذر  بن عبداللہ ہیں، یہ امام بخاری اور امام ابن ماجہ رحمہما اللہ وغیرہ کے استاذ اور مشہور فقہائے شافعیہ میں سے  ہیں، امام یحی بن معین، امام نسائی اور دیگر حضرات رحمہم اللہ  نے ان کی توثیق کی ہے، ان کی وفات دو سو چھتیس ہجری (المتوفیٰ:۲۳۶ھ) میں ہوئی۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (2/ 207، الترجمة:249) جمال الدين يوسف بن عبد الرحمن المزي (المتوفى: 742ھ) مؤسسة الرسالة - بيروت:

خ ت س ق: إبراهيم بن المنذر بن عبد الله بن المنذر ابن المغيرة بن عبد الله بن خالد بن حزام بن خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي بن كلاب، القرشي، الأسدي، الحزامي، أبو إسحاق المدني، وجده خالد بن حزام أخو حكيم بن حزام.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روى عنه: البخاري ، وابن ماجه، وإبراهيم بن أحمد بن النعمان الأزدي، وأبو عبد الملك أحمد بن إبراهيم البسري ، وأحمد بن زنجويه المخرمي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأبو جعفر محمد بن أحمد بن نصر الترمذي، وأبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، وأبو بكر محمد بن إسحاق الصاغاني، ومحمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي، وأبو يحيى محمد بن عبد الرحيم البزاز المعروف بصاعقة ، ومحمد بن علي بن حمزة الأنصاري، ومحمد بن أبي غالب القومسي، ومحمد بن يعقوب بن الفرجي،

ومسعدة بن سعد العطار المكى، ومصعب بن إبراهيم بن حمزة الزبيري، ويعقوب بن سفيان الفارسي قال عبد الخالق بن منصور عن يحيى بن معين: ثقة۔ وقال عثمان بن سعيد الدارمي: رأيت يحيى بن معين كتب عن إبراهيم بن المنذر أحاديث ابن وهب، ظننتها المغازي وقال النسائي: ليس به بأس وقال صالح بن محمد: صدوق، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال يعقوب بن سفيان ومحمد بن عبد الله الحضرمي: مات سنة ست وثلاثين ومئتين۔

  1. سند کے پانچویں راوی سعید بن محمد بن ابو موسی مدینی ہیں، ان کو علامہ عبد الرحمن ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابو حاتم محمد بن ادریس  رحمہ اللہ کے حوالے سے "حدیثه لیس بشیئ" (ان كی حدیث کسی حیثیت کی حامل نہیں) کہا ہے، ائمہ فن رحمہم اللہ کے نزدیک یہ سخت جرح ہے اور ایسے راوی کی روایت فضائل اور احکام دونوں میں قبول نہیں ہوتی۔

 جبکہ دوسری طرف امام  ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ" ان کی احادیث ثقات کی احادیث کے مشابہ نہیں ہیں، اگر یہ کسی روایت میں منفرد ہوں تو جب تک کوئی اور راوی اس روایت کو نقل نہ کرے اس وقت تک ان کی روایت سے استدلال  نہیں کیا جا سکتا،" لہذا قابل استدلال نہ ہونے سے  اعتبار ( ائمہ فن کے ہاں  ایک اصطلاحی لفظ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ضعف خفیف والی روایت کو متابع اور شاہد کے طور پر لینا  اور غور کرنے کے بعد روایت پر حکم لگانا، اس روایت کے شواہد کی تفصیل آگے آرہی ہے)  کی نفی نہیں کی جا سکتی۔  علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی امام ابن حبان رحمہ اللہ کی عبارت کو نقل کیا ہے اور اس عبارت کے نقل کرنے کے علاوہ ان پر کوئی جرح نہیں کی۔جس سے معلوم ہوا کہ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ بھی امام ابن حبان رحمہ اللہ کے موقف سے متفق ہیں، لہذا ان دونوں حضرات کے نزدیک ان  کی روایت تابع اور شاہد کے طور پر قبول کی جاسکتی ہے۔

نیزعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے "میزان الاعتدال" میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں بھی یہی دوقول نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے، ان کی عبارات پیچھے گزر چکی ہیں، جبکہ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ جرح میں متشدد شمار ہوتے ہیں، اس لیے اگر مذکورہ راوی کی روایت کا متن منکر نہ ہو تو اعتبار کے لیے اس کو قبول کیا جا سکتا ہے۔

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (4/ 58، رقم الترجمۃ: 257) أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر دار الكتب العلمية - بيروت:

سعيد بن محمد بن أبي موسى المدني روى عن محمد بن المنكدر روى عنه إبراهيم بن المنذر ويعقوب بن حميد سمعت أبي يقول ذلك. حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: حديثه ليس بشئ.

المجروحين لابن حبان (1/ 326، رقم الترجمۃ: 404) محمد بن حبان البُستي (المتوفى: 354هـ) دار الوعي – حلب:

سعيد بن محمد بن أبي موسى أبو عثمان المدني يروي عن محمد بن المنكدر روى عنه أهل الحجاز والغرباء يقلب الأخبار روى عن بن المنكدر بنسخة منها أشياء مستقيمة تشبه حديث الثقات وأشياء مقلوبة لا تشبه حديث الأثبات لا يجوز الاحتجاج بخبره إذا انفرد۔[4]

  1. سند کے چھٹے راوی محمد بن منکدر بن عبداللہ قرشی مدنی رحمہ اللہ ہیں، یہ مشہور تابعین میں سے ہیں، ان کا حضرت جابر بن عبداللہ،  عبداللہ بن زبیر اور بعض دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اجمعین سے سماع ثابت ہے، ان سے کتبِ ستہ کے مصنفین رحمہم اللہ نے روایات لی ہیں، کیونکہ علامہ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے اس راوی کا ترجمہ بیان کرنے سے پہلے "ع" کی علامت ذکر کرکے کتب ستہ کے مصنفین کی جماعت کی طرف اشارہ کیا ہے، ان كو حافظ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے امام یحی بن معین اور ابو حاتم رازی  رحمہما اللہ کے حوالے سے ثقہ قرار دیا ہے۔ ان کی وفات ایک سو اکتیس ہجری (المتوفیٰ:۱۳۱ھ) میں ہوئی۔

التاريخ الكبير للبخاري (1/ 219، رقم الترجمۃ:691) محمد بن إسماعيل البخاري (المتوفى: 256ھ) الطبعة: دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد:

مُحَمَّد بْن المنكدر بْن عَبْد اللَّه بْن الهدير القرشي التيمي المدني سَمِعَ جَابِر بْن عَبْد اللَّه وابْن الزبير وعمه ربيعة سَمِعَ منه الثوري وشُعْبَة وعُمَرو بْن دينار۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (26/ 508، رقم الحدیث: 5632) جمال الدين يوسف بن عبد الرحمن المزي (المتوفى: 742ھ) مؤسسة الرسالة - بيروت:

ع: محمد بن المنكدر بن عبد الله بن الهدير بن عبد العزى بن عامر بن الحارث بن حارثة بن سعد بن تيم بن مرة القرشي التيمي، أبو عبد الله، ويقال: أبو بكر المدني، أخو أبي بكر بن المنكدر، وعمر بن المنكدر. روى عن: إبراهيم بن عبد الله بن حنين (س) ، وأنس بن مالك (خ م د ت س) ، وجابر بن عبد الله ۔۔۔۔۔۔۔ وقال عبد الله بن الزبير الحميدي: حافظ. وقال إسحاق بن منصور  عن يحيى بن معين، وأبي حاتم: ثقة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال البخاري عن هارون بن محمد الفروي: مات سنة إحدى وثلاثين ومئة.[5]

  1.  اس سند کے ساتویں اور آخری راوی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ ہیں، یہ مشہور صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عدالت پر امت کا اتفاق ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس روايت کو رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

اقوال کے درمیان مناقشہ:

مذکورہ سند کے رواۃ کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کے ذکر کردہ اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ  اس سند کے  پانچویں راوی کے علاوہ  باقی تمام ثقہ ہیں، پانچویں راوی سعید بن محمد بن ابی موسی مدنی کے بارے میں امام عبدالرحمن بن ابی حاتم رحمہ اللہ نے "حدیثه لیس بشیئ" کہا ہے اور یہ چوتھے درجے کی جرح ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ ایسے راوی کی روایت احکام اور فضائل دونوں کے لیے قبول نہیں۔لیکن امام ابو حاتم محمد بن ادریس  رحمہ اللہ کو علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے متشددین میں سے  شمار کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ  امام ا بو حاتم اور امام یحی بن معین ہر راوی پر جرح کرتے ہیں، لہذا ان کی جرح کو معتبر قرار دینے کے لیے دوسرے ائمہ فن رحمہم اللہ کی تائید ضروری ہے:

فتح المغيث بشرح ألفية الحديث (4/ 359) مكتبة السنة ، مصر:

وقد قسم الذهبي من تكلم في الرجال أقساما، فقسم تكلموا في سائر الرواة ; كابن معين وأبي حاتم، وقسم تكلموا في كثير من الرواة ; كمالك وشعبة، وقسم تكلموا في الرجل بعد الرجل ; كابن عيينة والشافعي۔

جبکہ دوسری طرف امام ابن حبان اور علامہ ابن جوزی رحمہما اللہ کی رائے  سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت صرف احکام میں استدلال کے لیے قبول نہیں، اعتبار یعنی  تابع اور شاہد کے طور پر لی جا سکتی ہے، لہذا ان کے نزدیک اس جرح سے روایت میں ضعف خفیف آئے گا  اور محدثین کرام رحمہم اللہ  کے اصول کے مطابق ایسی روایت  فضائل کے باب میں قبول ہو گی۔

جہاں تک سند کے دوسرے راوی  عبدالباقی بن قانع  اور تیسرے نمبر کے راوی محمد بن احمد بن نصر ترمذی کو عمرکے آخری حصہ میں خلط لا حق ہونے کا تعلق ہے تو مذکورہ روایت کے بارے میں علم نہیں ہو سکا کہ ان حضرات سے یہ روایت خلط سے پہلے یا خلط کے بعد لی گئی ہے۔ لیکن عبد الباقی بن قانع رحمہ اللہ کے بارے میں علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہماللہ کی تصریح کے مطابق لوگوں نے خلط لاحق ہونے کے زمانہ میں ان سے روایات لینا چھوڑ دی تھیں، جس سےبظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت خلط سے پہلے کی ہے۔ اور تیسرے راوی محمد بن احمد بن نصر کی طرف  بھی اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خلط کی نسبت کی ہے، لیکن دیگر کبار ائمہ کرام رحمہم اللہ  سے  ان کے بارے میں خلط کا قول منقول نہیں۔جبکہ یہ حضرات حافظ صاحب رحمہ سے زمانے کے اعتبار سے متقدم اور فن جرح و تعدیل میں بھی فائق ہیں، لہذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مقابلے میں کبار ائمہ کرام رحمہم اللہ حافظ مزی اور  ابوبکرخطیب بغدادی   کے اقوال کا اعتبار کیاجائے گا۔

   نیز اگر مذکورہ  دونوں راویوں کے آخر عمر میں خلط کو تسلیم کر لیا جائے تو  بھی اس روایت کو چھوڑا نہیں جا سکتا، کیونکہ ایسی روایت کے بارے میں محدثین کرام نے اصول یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ روایت خلط لاحق ہونے سے پہلے لی گئی ہو تو وہ مقبول ہے اور اگر خلط لاحق ہونے کے بعد لی گئی ہو یا معلوم نہ ہو سکے کہ یہ روایت قبل الخلط کی ہے یا بعد الخلط کی تو ان دونوں صورتوں میں وہ روایت قبول نہیں ہو گی،  لیکن محدثین کے ہاں قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت احکام میں قابلِ احتجاج نہیں! لہذا احکام میں اعتبار یعنی متابع اور شاہد کے طور پر لی جا سکتی ہے، اسی طرح فضائل میں بھی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا متن منکر نہ ہو۔

اسی لیےجس ثقہ راوی کو آخری عمر میں خلط لاحق ہو جائے اس کے بارے میں ائمہ فن رحمہم اللہ تعالی " صدوق تغیر بآخرۃ"([6])کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان الفاظ کو ائمہ کرام رحمہم اللہ نے پانچویں نمبر کی تعدیل میں شامل کیا ہے ، اور ایسے رواۃ کی روایت کا حکم یہ ہے کہ ان کی روايت منفرد ہونے کی حالت میں احکام کے باب میں توقابل استدلال نہیں ہوتی، البتہ  فضائل میں مطلقا  اور احکام کے باب میں متابع اور شاہد کے طور پر قبول کی جا سکتی ہے، چنانچہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ  اپنی کتاب "فتح المغیث" میں  پانچویں درجے کی تعدیل کا حکم ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فتح المغيث  لشمس الدين محمد بن عبد الرحمن السخاوي:(ج:1،ص:205) دارالكتب العلمية، بيروت:

ألفاظ التعديل ۔۔۔۔۔ أهل هذه المراتب الاحتجاج بالأربعة الأولى منها، وأما التي بعدها، فإنه لا يحتج بأحد من أهلها لكون ألفاظها لا تشعر بسعي بشريطة الضبط، بل يكتب حديثهم للاعتبار ويختبر.

الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح (2/ 744) مكتبة الرشد،بيروت:

معرفة من خلط في آخر عمره من الثقات:

هذا فن عزيز مهم لم أعلم أحدا أفرده بالتصنيف واعتنى به مع كونه حقيقا بذلك جدا وهم منقسمون فمنهم من خلط لاختلاطه "وخرفه" ومنهم من خلط لذهاب بصره أو لغير ذلك والحكم فيهم أنه يقبل حديث من أخذ عنهم قبل الاختلاط ولا يقبل حديث من أخذ عنهم بعد "الاختلاط" أو اشكل أمره فلم يدر هل أخذ عنه قبل الاختلاط أو بعده فمنهم عطاء بن السائب اختلط في آخر عمره فاحتج أهل العلم برواية الأكابر عنه مثل سفيان الثوري وشعبة لأن سماعهم منه كان في الصحة وتركوا الاحتجاج برواية من سمع منه آخرا.

مذکورہ حدیث کے توابع اور شواہد:

مذکورہ حدیث اصطلاحی اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں اور اس کے معنی کی تائیدقرآ کریم سے بھی ہوتی ہے:

  1.  چنانچہ قرآن مقدس میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

              القرآن الکریم[النور: 32]:

{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ   مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}

تم میں سے جن (مردوں اورعورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو ا ہو ان کا بھی نکاح کراؤ اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے ان کو بے نیاز کر دے گا اور  اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔                  (آسان ترجمہ قرآن:سورہٴ نور: 32)

اس آیت کے تحت مفسرین کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ نکاح کرنے سے اللہ پاک وسعت عطا فرماتے ہیں، چنانچہ امام طبری اور علامہ آلوسی رحمہما اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں نکاح کو رزق کی فراوانی کا ذریعہ قرار دے کر مذکورہ روایت کو بطور استدلال پیش کیا ہے:

تفسير الطبري (19/ 166) مؤسسة الرسالة، بیروت:

حدثني عليّ، قال: ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله: (وَأَنْكِحُوا الأيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ) قال: أمر الله سبحانه بالنكاح، ورغَّبهم فيه، وأمرهم أن يزوّجوا أحرارهم وعبيدهم، ووعدهم في ذلك الغنى، فقال: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) .

حدثنا أبو كريب، قال: ثنا حسن أبو الحسن، وكان إسماعيل بن صبيح مولى هذا، قال: سمعت القاسم بن الوليد، عن عبد الله بن مسعود، قال: التمسوا الغنى في النكاح، يقول الله: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) .۔۔۔۔۔۔ وقوله: (وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ) يقول جلّ ثناؤه: والله واسع الفضل جواد بعطاياه، فزوّجوا إماءكم، فإن الله واسع يوسع عليهم من فضله، إن كانوا فقراء. عليم: يقول: هو ذو علم بالفقير منهم والغنيّ، لا يخفى عليه حال خلقه في شيء وتدبيرهم.

روح المعاني (9/ 342) دار الكتب العلمية - بيروت:

إن يكونوا فقراء يغنهم الله من فضله الظاهر أنه وعد من الله عز وجل بالإغناء، وأخرج ذلك ابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما ولا يبعد أن يكون في ذلك سد لباب التعلل بالفقر وعده مانعا من المناكحة.............. فقد أخرج عبد الرزاق وأحمد والترمذي وصححه والنسائي وابن ماجه وابن حبان والحاكم وصححه والبيهقي في سننه عن أبي هريرة قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاثة حق على الله تعالى عونهم الناكح يريد العفاف والمكاتب يريد الأداء والغازي في سبيل الله تعالى» .

وأخرج الخطيب في تاريخه عن جابر قال: «جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة فأمره أن يتزوج۔

  1. اس  حدیث کے توابع اور  شواہد موجود ہیں، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں شاہد کے طور پر درج ذیل حدیث نقل کی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس پر حسن ہونے کا حکم لگایا ہے، اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اوپر لازم کر لیا ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو پاکدامنی اختیار کرنے کی نیت سے نکاح کرے:

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 184،الحديث: 1655) شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر:

حدثنا قتيبة قال: حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة حق على الله عونهم: المجاهد في سبيل الله، والمكاتب الذي يريد الأداء، والناكح الذي يريد العفاف ": هذا حديث حسن.

اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اور  علامہ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس پر امام حاکم نے  شیخین کی شرط پرصحیح  قرار دیا اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے  بھی اس کی سند میں موجود سالم بن جنادہ کو ثقہ اور مامون لکھنے کے بعد "خ میم" ذکر کیا، جس میں شیخین کی شرط  کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کیا ہے، اپنی طرف سے موافقت یا مخالفت کی تصریح نہیں کی،  نیز  علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس روایت کی سند کے رواة صحیح حدیث کے رواة کی طرح ہیں، لہذایہ روایت بھی سوال میں مذکور روایت کے لیے شاہد کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ عورتوں سے نکاح کرو، یہ تمہارے پاس مال کھینچ کر لائیں گی۔

المستدرك على الصحيحين (2/ 174، الترجمة: 2679) دار الكتب العلمية – بيروت:

حدثنا علي بن عيسى بن إبراهيم، ثنا الحسين بن محمد بن زياد، ثنا أبو السائب سلم بن جنادة، ثنا أبو أسامة، ثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تزوجوا النساء، فإنهن يأتينكم بالمال» هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه لتفرد سالم بن جنادة بسنده، وسالم ثقة مأمون "

قال الذهبي في التلخيص: تفرد سالم بن جنادة عنه، وهو ثقة مأمون: على شرط البخاري ومسلم.

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (4/ 255، رقم الحدیث: 7330) مكتبة القدسي، القاهرة:

عن عائشة قالت: «قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:" تزوجوا النساء يأتينكم بالأموال»".

رواه البزار، ورجاله رجال الصحيح خلا سلم بن جنادة، وهو ثقة.

ان شواہد کو  علامہ مناوی رحمہ اللہ نے فیض القدیر میں اور  سيوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الدرر المنتثرة میں بھی ذ کر کیا ہے اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے  علامہ دیلمی کے حوالے سے  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ نکاح کے ذریعہ رزق تلاش کرو۔

لہذا سوال میں ذکر کی گئی روایت اس سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، مگر اس روایت کے شواہد اصولِ حدیث کی روشنی میں سند ا حسن یا صحیح  کا درجہ رکھتےہیں، جہاں تک اس روایت کے معنی کا تعلق ہے تو چونکہ اس کے معنی کی تائید قرآن کریم اور کئی احادیث سے ہوتی ہے، اس لیے اس کا معنی صحیح اور یہ روایت قابلِ عمل ہے۔


([1]) ميزان الاعتدال (2/ 156، الترجمۃ: 3262) للحافظ شمس الدین الذھبی (المتوفى: 748ھ)دار المعرفة ،بيروت:

سعيد بن محمد المدني. عن محمد بن المنكدر. وعنه ابن كاسب، وإبراهيم بن المنذر. قال أبو حاتم: ليس حديثه بشئ. وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به. يكنى أبا عثمان. قلت: حديثه من رواية الحرامى، عنه، عن ابن المنكدر، عن جابر: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو الفاقة، فأمره أن يتزوج۔

[2] لسان الميزان (3/ 383، رقم الترجمة: 1536) أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان:

"عبد الباقي" بن قانع أبو الحسين الحافظ قال الدارقطني كان يحفظ ولكنه يخطىء ويصيب وقال البرقاني هو عندي ضعيف ورأيت البغداديين يوثقونه وقال أبو الحسن بن الفرات حدث به اختلاط قبل موته بسنتين وقال الخطيب لاأدري لماذا ضعفه البرقاني؟ فقد كان ابن قانع من أهل العلم والدراية ورأيت عامة شيوخنا يوثقونه وقد تغير في آخر عمره مات سنة إحدى وخمسين وثلاث مائة انتهى وهذا هو الراجح وأرخه بن ماكولا سنة وقال ابن حزم اختلط ابن قانع قبل موته بسنة وهو منكر الحديث تركه أصحاب الحديث جملة قلت ما أعلم أحدا تركه وإنما صح أنه اختلط فتجنبوه ۔

[3] لسان الميزان (6/513، رقم الحدیث: 6401) للحافظ ابن حجر العسقلاني:

محمد بن أحمد بن نصر الترمذي أبو جعفر الفقيه. مشهور من فقهاء الشافعية. روى عن يحيى بن بكير وجماعة. روى عنه جماعة منهم: أبو بكر بن كامل وعبد الباقي بن قانع وأبو بكر الشافعي وأبو بكر بن خلاد النصيبي. وكان ثقة متقنا فقيها ورعا. قال الدارقطني: لم يكن للشافعية بالعراق أرأس منه، وَلا أورع، وكان صبورا على الفقر. وقال الخطيب: كان ثقة من أهل العلم والفضل والزهد. وقال أحمد بن كامل: توفي سنة 295 وكان قد اختلط في آخر عمره اختلاطا عظيما.

[4] الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي (1/ 325، الترجمۃ: 1435) أبو الفرج عبد الرحمن الجوزي (المتوفى: 597هـ)دار الكتب

العلمية، بيروت:

سعيد بن محمد بن أبي موسى أبو عثمان المدني يروي عن محمد بن المنكدرقال ابن حبان: له أحاديث لا تشبه الثقات لا يجوز الاحتجاج بخبره إذا انفرد۔

لسان الميزان، ت: أبي غدة (4/ 72، رقم الترجمۃ: 3476) للحافظ ابن حجر العسقلانی(المتوفى: 852هـ) :

سعيد بن محمد المدني [أَبُو عثمان] عن محمد بن المنكدر. وعنه ابن كاسب وإبراهيم بن المنذر. قال أبو حاتم: ليس حديثه بشيء. وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به يكنى أبا عثمان. قلت: حديثه من رواية الحزامي عنه، عَنِ ابن المنكدر، عَن جَابر رضي الله عنه: جاء رجل إلى النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يشكو الفاقة فأمره أن يتزوج.

[5] الثقات لابن حبان (5/ 350، رقم الترجمۃ: 5163) محمد بن حبان بن أحمد بن حبان (المتوفى:354ھ) وزارة المعارف

للحكومة العالية الهندية:

محمد بن المنكدر بن عبد الله بن الهدير بن عبد العزى بن عامر بن الحارث بن حارثة بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب التيمي القرشي المدني كان من سادات القراء لا يتمالك البكاء إذا قرأ أحد حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم كنيته أبو عبد الله وقد قيل أبو بكر وهم إخوة ثلاثة أبو بكر ومحمد وعمر يروي محمد عن جابر وابن الزبير روى عنه مالك والثوري وشعبة والناس مات في ولاية مروان بن محمد سنة ثلاثين ومائة وقد نيف على السبعين۔

([6])قواعد فی علوم الحدیث: (ص:249) مکتب المطبوعات الاسلامیۃ:

والخامسۃ: شیخ، الی الصدق ما ھو، جید الحدیث، حسن الحدیث، صدوق سیئ الحفظ، صدوق یھم، صدوق یخطئ، صدوق لہ اوھام ،صدوق تغیر بآخرۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یکتب حدیثہ، وینظر فیہ ؛لان ھذہ العبارۃ لاتشعر بالضبط، فیعتبر حدیثہ بموافقۃ الضابطین۔

حوالہ جات
الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 96) عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ):
165 - (حديث) "تزوجوا فقراء يغنكم الله" لا يعرف، ولكن في صحيح ابن حبان والحاكم: "ثلاثة حق على الله أن يغنيهم: الناكح ليستعفف".قلت: هذا تصحف على المصنف، وإنما هو: "يعينهم الله" بالعين المهملة، من الإعانة، وأقرب منه ما أخرجه الديلمي من حديث عائشة مرفوعا: "تزوجوا النساء فإنهن يأتين بالمال" ومن شواهده حديث: "التمسوا الرزق بالنكاح" أخرجه الديلمي من حديث ابن عباس.
الفردوس بمأثور الخطاب (1/ 88، رقم الحدیث: 282) شيرويه بن شهردار بن شيرو يه ، أبو شجاع الديلميّ (المتوفى: 509ھ):
عن ابْن عباس: التمسوا الرزق بِالنكاحِ۔

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 10/شعبان المعظم1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے