021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو بیویوں کو طلاق دینے کا حکم
83447طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میری دو بیویاں ہیں ایک سے شادی کو 15 سال ہو گئے  ہیں اور اس سے14 سال کا ایک بیٹا ہے ۔دوسری بیوی سے  شادی کو 2 سال ہوئے  ہیں اور کوئی اولاد نہیں ہے۔

     1-میری پہلی بیوی بہت بدزبان ہے اور بعض اوقات بہت زیادہ پریشان کن حالات ہو جاتے ہیں ایک بار بیوی لڑ رہی تھی اور مجھے نیند آ رہی تھی تو میں نے جان چھڑانے کے لئے بولا تم حرام ہو اور جاؤ مجھے سونےدو ۔ یہ  دو تین سال پہلے کی بات ہے۔نہ میرا طلاق کا ارادہ تھا ،نہ چھوڑ نے کا ارادہ تھا ۔کیا میری طلاق ہو گئی پہلی بیوی سے ؟

     2- میری دوسری شادی کا کچھ عرصہ  بعد میری پہلی بیوی ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلی گئی میرے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئی۔میں اس کو منانے کے لیے جاتا ،اس کا ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ  دوسری بیوی کو طلاق دو تو میں واپس آ جاؤں گی ۔ میں نے اس کومنانے کے لیے  متعدد بار (تین ،چار مرتبہ تو لازمی جھوٹ بولا ہے ) جھوٹ بولا کہ میں نے اسے دوسری بیوی کو چھوڈ دیا ہے تم گھر واپس چلو ۔ ایسا میں نے کئی بار بولا اور  مختلف اوقات میں بولا ،میری نیت نہ طلاق کی تھی نہ چھوڑنے کی ۔کیا میری دوسری بیوی کو طلاق ہو گئی ؟

     3-تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے دونو ں بیویوں کو بولا تھا کہ اگر میں ایک بیوی کوطلاق دوں گا تو دوسری بیوی کو بھی طلاق ہو جائے  گی ۔کیا میری دونو ں بیویوں کوطلاق ہو چکی ہے ؟

اوریہ  قسم میں نے کچھ عرصہ پہلے بولی ۔اور مسئلہ نمبر 2 پہلے ہی ہو چکا تھا ۔اس صورت میں اگر میری دوسری بیوی کو پہلےہی  طلاق ہو چکی تو کیا قسم قائم ہو سکتی ہے ؟

4-محترم میں نے اپنی دوسری بیوی کو اس کی کسی غلطی پرغصے میں بولا کا تم دونو ں ایک جیسی ہو اور  میری طرف سے تم دونوں  آزاد ہو اور جو چاہے کرو۔ دراصل میری پہلی بیوی مجھے کافی عرصہ سے دباؤ ڈال رہی تھی کہ میں دوسری بیوی کوطلاق دے دوں اور میری پہلی بیوی بھی میرے ساتھ کافی زیادہ  بدکلامی کر چکی تھی تو اس وجہ سے میں نے دوسری بیوی کو بولا کہ تم دونوں  ایک جیسی ہو اور میری طرف سے آزاد ہو اور جو دل کرتا ہے کرو  ،میں جا رہا ہوں تم لوگوں کو چھوڑ کر۔اس وقت میرے دل میں یہی خیال تھا کہ جائیں دونو ہی جائیں مجھے چھوڑ کر زندگی میں سکون تو آئے ۔کیا میری دونوں  بیویوں کوطلاق ہو گئی ؟

برائے  مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔کیا  طلاق ہو چکی ہے اگر ہاں تو کتنی بار اور رجوع کا موقع ہے یا نہیں ؟

میری دو بیویاں ہیں ایک سے شادی کو 15 سال ہو گئے  ہیں اور اس سے14 سال کا ایک بیٹا ہے ۔دوسری بیوی سے  شادی کو 2 سال ہوئے  ہیں اور کوئی اولاد نہیں ہے۔

     1-میری پہلی بیوی بہت بدزبان ہے اور بعض اوقات بہت زیادہ پریشان کن حالات ہو جاتے ہیں ایک بار بیوی لڑ رہی تھی اور مجھے نیند آ رہی تھی تو میں نے جان چھڑانے کے لئے بولا تم حرام ہو اور جاؤ مجھے سونےدو ۔ یہ  دو تین سال پہلے کی بات ہے۔نہ میرا طلاق کا ارادہ تھا ،نہ چھوڑ نے کا ارادہ تھا ۔کیا میری طلاق ہو گئی پہلی بیوی سے ؟

     2- میری دوسری شادی کا کچھ عرصہ  بعد میری پہلی بیوی ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلی گئی میرے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئی۔میں اس کو منانے کے لیے جاتا ،اس کا ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ  دوسری بیوی کو طلاق دو تو میں واپس آ جاؤں گی ۔ میں نے اس کومنانے کے لیے  متعدد بار (تین ،چار مرتبہ تو لازمی جھوٹ بولا ہے ) جھوٹ بولا کہ میں نے اسے دوسری بیوی کو چھوڈ دیا ہے تم گھر واپس چلو ۔ ایسا میں نے کئی بار بولا اور  مختلف اوقات میں بولا ،میری نیت نہ طلاق کی تھی نہ چھوڑنے کی ۔کیا میری دوسری بیوی کو طلاق ہو گئی ؟

     3-تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے دونو ں بیویوں کو بولا تھا کہ اگر میں ایک بیوی کوطلاق دوں گا تو دوسری بیوی کو بھی طلاق ہو جائے  گی ۔کیا میری دونو ں بیویوں کوطلاق ہو چکی ہے ؟

اوریہ  قسم میں نے کچھ عرصہ پہلے بولی ۔اور مسئلہ نمبر 2 پہلے ہی ہو چکا تھا ۔اس صورت میں اگر میری دوسری بیوی کو پہلےہی  طلاق ہو چکی تو کیا قسم قائم ہو سکتی ہے ؟

4-محترم میں نے اپنی دوسری بیوی کو اس کی کسی غلطی پرغصے میں بولا کا تم دونو ں ایک جیسی ہو اور  میری طرف سے تم دونوں  آزاد ہو اور جو چاہے کرو۔ دراصل میری پہلی بیوی مجھے کافی عرصہ سے دباؤ ڈال رہی تھی کہ میں دوسری بیوی کوطلاق دے دوں اور میری پہلی بیوی بھی میرے ساتھ کافی زیادہ  بدکلامی کر چکی تھی تو اس وجہ سے میں نے دوسری بیوی کو بولا کہ تم دونوں  ایک جیسی ہو اور میری طرف سے آزاد ہو اور جو دل کرتا ہے کرو  ،میں جا رہا ہوں تم لوگوں کو چھوڑ کر۔اس وقت میرے دل میں یہی خیال تھا کہ جائیں دونو ہی جائیں مجھے چھوڑ کر زندگی میں سکون تو آئے ۔کیا میری دونوں  بیویوں کوطلاق ہو گئی ؟

برائے  مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔کیا  طلاق ہو چکی ہے اگر ہاں تو کتنی بار اور رجوع کا موقع ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق کا معاملہ شرعاً انتہائی نازک اور حلال و حرام کا ہے۔ اس میں کسی دارالافتاء سےغلط بیانی کرکے  فتوی لے کر اپنی چاہت کے مطابق عمل کرنے سے کوئی شخص اللہ کے نزدیک  گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ لہذا ایسے کسی فعل سے اجتناب کرنا لازمی ہے۔ صورت مسئولہ اگر حقیقت کے مطابق ہے تو اس کی تفصیل درجہ ذیل ہیں :

.1"تم حرام ہو اور جاؤ مجھے سونےدو"

بیوی کے حق میں لفظ" حرام" استعمال کرنے سے ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔طلاق  کی نیت ہو یا نہ ہو دونوں کا ایک ہی حکم ہے ۔لہذا یہ الفاظ "تم حرام ہو اور جاؤ مجھے سونےدو"سے آپ کی بیوی کو  طلاق بائن ہوگئی ہے ۔

.2میں نے دوسری بیوی کو چھوڑ دیا ہے۔

یہ الفاظ اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے کنایہ ہیں، مگر عرف کی وجہ سے یہ طلاق کے وقوع کے لیے صریح بن چکے ہیں،کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ الفاظ عام طور پر طلاق کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے ان الفاظ میں طلاق کی نیت کا ہونا ضروری نہیں ۔ایک دفعہ کہنے سے ایک طلاق رجعی اور دو دفعہ کہنے سے دو طلاق رجعی واقع ہوتی ہیں۔ اور اگر یہی الفاظ تین دفعہ کہہ دیے تو تین طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہیں۔

اور طلاق کےجھوٹے اقرار سے بھی قضاء طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

اس لیے صورت مسؤلہ میں   پہلے بیوی  کومنانے کے لیے  متعدد بار  جھوٹ بول کر  (کہ میں نے  دوسری بیوی کو چھوڈ دیا ہے تم گھر واپس چلو) تین دفعہ  کہنے سے  دوسری بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہے ۔ آپ دونوں (دوسری بیوی )کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے، لہذا اب آپ دونوں کے درمیان رجوع نہیں ہو سکتا اور موجودہ صورتِ حال میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔

.3"اگر میں ایک بیوی کوطلاق دوں گا تو دوسری بیوی کو بھی طلاق ہو جائے  گی "

چونکہ مسئلہ نمبر 2میں   آپ کی دوسری بیوی کو پہلےہی  طلاق ہو چکی ہے اس لیے تیسرے مسئلہ میں  طلاق کے الفاظ کا کوئی اعتبار نہیں ۔کیونکہ   یہ الفاظ "کہ اگر میں ایک بیوی کوطلاق دوں گا تو دوسری بیوی کو بھی طلاق ہو جائے  گی " مسئلہ نمبر 2کے بعد بولے گئے ہیں ۔

.4 تم دونو ںایک جیسی ہو اور  میری طرف سے تم دونو آزاد ہو اور جو چاہے کرو۔

اگر اس سے طلاق کی نیت نہ تھی تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر طلاق کی نیت تھی تو چونکہ دوسری بیوی کو مسئلہ نمبر  2 میں تین طلاقیں  واقع ہوچکی ہے ،لہذا  اس کے حق میں یہ الفاظ لغو ہوجائیں گے،لیکن پہلے بیوی کو ایک طلاق مزید ہوجائیگی ۔ اب رجوع تو نہیں ہوسکتا ،البتہ آپ  دونوں (پہلی بیوی )رضامندی سے نئے سرے سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ۔دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار ہوگا ۔اگر اس نے اس کے بعد ایک بھی طلاق دی تو یہ عورت مکمل طور پر اس کے لیے حرام ہو جائے گی ۔

حوالہ جات
ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً.(الدر المختار:263/3)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ :ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام ،فيقع بلا نية للعرف.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : قوله 🙁 فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية ،وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات .وإنما كان ما ذكره صريحا ؛لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال.وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك ،فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية.(الدر المختار مع رد المحتار3/ 252)
قال العلامة الحصكفي رحمه اللہ:(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا .(الدر المختار: 306/3)
قال جمع من العماء رحمہ اللہ :الطلاق الصریح یلحق الطلاق الصریح بأن قال: أنتِ طالق وقعت طلقۃ، ثم قال: أنتِ طالق تقع أخریٰ ،ویلحق البائن أیضا بأن قال لہا :أنتِ بائن أوخالعہا علی مال، ثم قال لہا:أنتِ طالق، وقعت عندنا .(فتاوى الهندية :377/1)
فإن سرحتک کنایۃ لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ في الصریح، فإذا قال: رہا کردم، أي سرحتک یقع بہ الرجعی مع أن أصلہ کنایۃ أیضا ، و ما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، و قد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.( رد المحتار: 3/299)
قال العلامة الكاساني رحمه اللہ :ولا خلاف في هذه الجملة إلا في ثلاثة ألفاظ وهي قوله:سرحتك،وفارقتك، وأنت واحدة فقال أصحابنا: قوله: سرحتك وفارقتك من الكنايات ،لا يقع الطلاق بهما ،إلا بقرينة النية كسائر الكنايات. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 3/ 106)
 قوله 🙁 لا يلحق البائن البائن ): المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية.(رد المختار: 3/ 308)
لفظ"حرام"طلاقِ صریح بائن ہے،اس سے بدونِ نیت بھی طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔(احسن الفتاوی :184/5)

محمد مفاز

دارالافتاء، جامعۃ الرشید،کراچی

 3   شعبان 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مفاز بن شیرزادہ خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے