021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حرام مال سے خریدی گئی چیز کا حکم
83220جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین و شرع متین اس بارے میں کہ اگر زید کے بارے میں یہ علم ہو کہ اس نے مبیع  کو حرام مال کے بدلے حاصل کیا ہے۔ آیا اس شئے کی خریداری زید سے درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس بارے میں  حکم شرعی  میں درج ذیل تفصیل ہے:

پہلی صورت:اگرمبیع کا عوض حرام مال غیرمملوک ہومثلا سود، رشوت، غصب وغیرہ تواگروہ نقدی کےعلاوہ کوئی چیزہوتو اس کےعوض خریدی ہوئی چیز کااستعمال  بالاتفاق حرام ہے۔

دوسری صورت:اوراگر وہ غیرمملوک حرام مال نقدی ہوتوجمہور فقہاء کی رائے کے مطابق  ایسی صورت میں بھی حاصل کی جانے والی چیز  کا استعمال جائزنہیں،البتہ ان دونوں صورتوں میں استعمال سے قبل درج ذیل  دوکاموں میں سے ایک کام کرلیا جائے تواستعمال جائز ہوجائےگا۔

 ۱۔اگر مالک معلوم ہے تواس کو اس کے حق کے بقدررقم دیدے۔

۲۔اگر مالک معلوم نہیں تو کسی مسکین پر صدقہ کردےاوراس کےبعدوہ چیز مسکین سےمثل قیمت پرخریدلے۔(احسن الفتاوی:ج۸،ص۱۰۴،فتاوی عثمانی:ج۳:،ص:۱۲۱)

لیکن  تحقیق یہ ہےکہ  حرام مال سےخریدی گئی چیزکاحلال ہوناباقاعدہ ضمان ادا کرنے پر موقوف نہیں،بلکہ اختیار زمان ہی کافی ہے،یعنی صرف ضمان  اداکرنے کا پختہ عزم کر لینا بھی کافی ہے، لہذا  اس کے بعدچیزاستعمال کرکے ضمان حسب موقع و استطاعت یکمشت یامرحلہ وارکسی بھی طرح ادا کرسکتاہے۔

 البتہ مشہورفقیہ علامہ کرخی رحمہ اللہ تعالی کےقول کے مطابق  اس دوسری صورت میں جب تک ناجائزرقم  سے   ادائیگی کی شرط پر معاملہ نہ ہوتواس وقت تک ایسے حرام مال سے خریدارگئی چیز جائزاورحلال ہے۔لیکن فتوی اس پر نہیں۔یہ تفصیل غیرمملوک مال حرام سےخریدنےکےبارے میں تھی۔

تیسری صورت: اگرحرام مال ملک خبیث کے ساتھ ملوک ہو،یعنی ناجائز طریقہ سےکئےگئےلین دین سےحاصل شدہ رقم ہومثلا بیع فاسد یا اجارہ فاسدہ وغیرہ تو اس کےعوض خریدی گئی چیز کاخریدناکراہت تنزیہی کے ساتھ بالاتفاق حلال ہوگی۔

لہذااس تفصیل کےمطابق پہلی صورت میں حرام مال سےخریدی گئی چیزکاخریدنااوراس کااستعمال کرنابالاتفاق اوردوسری صورت میں جمہورکےمطابق ناجائزاورحرام ہے،البتہ  دونوں صورتوں میں اداءضمان یاکم ازکم اختیارضمان کی صورت میں استعمال درست ہوگا،جبکہ تیسری صورت میں خریداری کراہت تنزیہی کےساتھ جائزاوراس چیز کااستعمال حلال  اوردرست ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 189):
 وإن كانا مما لا يتعين فعلى أربعة أوجه فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق (وإن أشار إليها ونقد غيرها أو) أشار (إلى غيرها) ونقدها (أو أطلق) ولم يشر (ونقدها لا) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل (وبه يفتى) والمختار أنه لا يحل مطلقا كذا في الملتقى ولو بعد الضمان هو الصحيح كما في فتاوى النوازل واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام وهذا كله على قولهما.
 (قوله أو أطلق) بأن قال اشتريت بألف درهم ونقد من دراهم الغصب أو الوديعة عزمية، وفي التتارخانية عن الذخيرة أنه إذا أطلق ولم يشر، فإن نوى النقد منها فلا يخلو إن حقق نيته فنقد منها، فالأصح أنه لا يطيب، وإن لم يحقق نيته بطيب،؛ لأن مجرد العزم لا أثر له، وإن لم ينو ثم نقد منه طاب قال الحلواني: إنما يطيب إذا نوى أن لا ينقد منها ثم بدا له فنقد أما إذا نوى النقد منها مع علمه أنه ينقد لا يطيب اهـ ملخصا.
وفي البزازية وقول الكرخي عليه الفتوى ولا تعتبر النية في الفتوى ثم حمل ما مر على حكم الديانة (قوله قيل وبه يفتى) قاله في الذخيرة وغيرها كما في القهستاني، ومشى عليه في الغرر ومختصر الوقاية والإصلاح، ونقله في اليعقوبية عن المحيط، ومع هذا لم يرتضه الشارح فأتى بقيل لما في الهداية. قال مشايخنا لا يطيب قبل أن يضمن
 (قوله واختار بعضهم إلخ) هذا من كلام الزيلعي المعزو آخر العبارة وأتى به، وإن علم مما مر لإشعار هذا التعبير بعدم اعتماده نفيه تأييد لتعبيره بقيل مخالفا لما جزم به المصنف، ولكن لا يخفى أنهما قولان مصححان
وفي الملتقى وشرحه: ولو اشترى بألف الغصب أو الوديعة جارية تعدل ألفين، فوهبها أو طعاما فأكله، أو تزوج بأحدهما امرأة أو سرية أو ثوبا حل الانتفاع، ولا يتصدق بشيء اتفاقا؛ لأن الحرمة عند اتحاد الجنس اهـ ونحوه في القهستاني ونقل ط عن الحموي عن صدر الإسلام: أن الصحيح لا يحل له الأكل ولا الوطء؛ لأن في السبب نوع خبث اهـ فليتأمل
حاشية رد المحتار - (ج 5 / ص 219):
(ويطيب للمشتري منه لصحة عقده)
وهذا لا ينافي أن نفس الشراء مكروه لحصوله للبائع بسبب حرام، لان فيه إعراضا عن الفسخ الواجب، هذا ما ظهر لي.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۱شعبان۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے