021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ اور قابلِ وصول قرضوں و نقدی پر زکوۃ کا حکم
83346زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

گذارش ہے کہ  مجھے اپنی دکان(جس میں ہول سیل اور ریٹیل دونوں قیمتوں پر مال بیچا جاتا ہے ) کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ بتائیں کہ میں کس طرح ادا کروں ۔ سال ۲۰۲۳ میں جنوری سے دسمبر تک دکان کے کاروبار کی تفصیل یہ ہے :

              جنوری سے دسمبر تک  جو مال فروخت ہوا:- 159452986/

              مال کی اصل قیمتِ خرید :130463602/-

              مال سے جو منافع  کمایا : 28969365/-

              دکان کے کل خراجات: 13144064/-

              اخراجات نکالنے کے بعد خالص منافع: 15825301/-

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سال ۲۰۲۳ میں آپ نے جتنےمال  کی خریداری کی اور جتنا بھی فروخت کیا ، زکوۃ کی ادائیگی کے وقت اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا، بلکہ سال کے آخری دن (مثلا ۳۱ دسمبر) میں آپ کے پاس جتنا نقد روپیہ موجود تھا، اور جتنا مال تجارت( جو بیچنے  کی غرض سے خریدا  گیا ہو) دستیاب تھا ، ایک محتاط اندازے سے  اس  کی ریٹیل پرائس لگا لیں ،  اور آپ کا جتناقابل ِوصول  قرضہ دوسروں کے ذمہ تھا، وہ بھی اس میں  شامل کرلیں ، اس کے علاوہ اگر کوئی مکان،  پلاٹ یا گاڑی وغیرہ کوئی چیز  جو بیچنے  کی غرض سے خریدی گئی ہو، اس کی مارکیٹ ویلیو لگالیں ۔ پھر ان سب کی مجموعی قیمت لکھ لیں ۔

 پھر یہ دیکھ لیں کہ ۳۱ دسمبر کوآپ کے ذمہ دوسروں کا کتنا قرضہ اور کتنی ادائیگیاں باقی  تھیں  ؟ مثلا کاروبار کے لیے لیا گیا قرضہ ، ملازمین کی تنخواہیں، بجلی کے بلز، دکان یا مکان کا کرایہ ، اس کے علاوہ اگر کسی کھاتے کا حساب آپ کے ذمہ باقی تھا  ، تو وہ بھی شامل کرلیں ،پھر  ان سب کا جو بھی مجموعہ بنتا ہو ، اسے  مجموعی قیمت سے منہا  (منفی) کردیں ،  اس کے بعد جو رقم باقی بچے ، اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو اس کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) زکوۃ کی نیت سے  نکال دیں اور کسی مستحق ِ زکوۃ شخص کو  دے کر مالک بنادیں  ۔

زکوۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ قمری سال کے حساب سے زکوۃ نکالی جائے، زکوۃ کے لیے شمسی سال کا اعتبار نہیں کیا جاتا، لہذا  جس شمسی تاریخ کو آپ پہلی بار نصاب کے مالک بنے تھے، کلینڈر کی مدد سے اس دن کی قمری تاریخ معلوم کریں  اور آئندہ ہر سال اسی قمری تاریخ کو زکوۃ کا حساب کرلیا کریں۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 20):
وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 21):
وأما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا فيما تقدم بخلاف الذهب والفضة فإنه لا يحتاج فيهما إلى نية التجارة؛ لأنها معدة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى إعداد العبد ويوجد الإعداد منه دلالة على ما مر.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 257):
(وشرط أدائها نية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب أو تصدق بكله) أي شرط صحة أداء الزكاة نية مقارنة للأداء أو لعزل مقدار الواجب أو تصدق بجميع النصاب؛ لأنها عبادة فلا تصح بدون النية۔
الفتاوی الھندیۃ(:1/175):
(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لايسقط الزكاة، كذا في الهدايہ۔

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

16/ شعبان المعظم /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے