82800 | نکاح کا بیان | حرمت مصاہرت کے احکام |
سوال
حنفیہ کی مذہب پر ایک اشکال یہ بھی ہوتا ہے کہ مس اور زنا سے توحرمت ثابت کرتے ہیں لیکن وطی فی الدبر سے حرمت کو نہیں مانتے جبکہ وطی فی الدبر تو وطی فی الفرج ہی کی طرح ہے۔ اور یہ مس بالشہوۃ سے کئی درجہ بڑھ کر ہے ،اس سے تو حرمت لازمی طور پر ثابت ہو جانی چاہیے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر کوئی شخص وطی فی الدبر کرتا ہے تو اس کا یہ فعل وطی فی الفرج یعنی زنا کے قائم مقام نہیں بن سکتا ہے۔ کیونکہ وطی فی الفرج تو حمل کے ٹھہرنے اور توالد و تناسل کا سبب بنتا ہے جبکہ وطی فی الدبر میں ایسا ممکن نہیں ۔لہذا یہ وطی فی الفرج کے قائم مقام نہ بننے کی وجہ سے مثبت حرمت بھی نہیں ہوگی۔ اوراگر مس وطی فی الدبر کی غرض سے کیا یا مس کے دوران انزال ہو گیا تو اب علت یعنی وطی مفضی الی الجزئیۃ والبعضیۃ کا امکان ہی ختم ہو گیا ۔لہذا یہ دونوںمس مثبت حرمت نہ ہوں گے۔البتہ اگر وطی فی الدبر سے رک کر دوبارہ سے وطی فی الفرج کی غرض سے مس کیا تو اب دوبارہ سے علت پائے جانے کی وجہ سے یہ والا مس مثبت حرمت ہو گا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ الله تعالى : لو وطئ المرأة في الدبر فإنه لا يثبت حرمة المصاهرة وهو الأصح؛ لأنه ليس بمحل الحرث، فلا يفضي إلى الولد كما في الذخيرة ،وسواء كان بصبي أو امرأة كما في غاية البيان ،وعليه الفتوى كما في الواقعات ،ولأنه لو وطئها فأفضاها لا تحرم عليه أمها لعدم تيقن كونه في الفرج إلا إذا حبلت. وعلم كونه منه وأورد عليهما أن الوطء في المسألتين حقه أن يكون سببا للحرمة كالمس بشهوة سبب لها، بل الموجود فيهما أقوى منه، وأجيب بأن العلة هي الوطء، السبب للولد وثبوت الحرمة بالمس ليس إلا لكونه سببا لهذا الوطء، ولم يتحقق في الصورتين. (البحر الرائق :3/ 106)
قال العلامة ابن عابدین رحمه الله تعالى :فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتى ......قولہ:(فلا حرمة)؛ لأنه بالإنزال تبين أنه غير مفض إلى الوطء، هداية. قال في العناية: ومعنى قولهم إنه لا يوجب الحرمة بالإنزال أن الحرمة عند ابتداء المس بشهوة كان حكمها موقوفا إلى أن يتبين بالإنزال، فإن أنزل لم تثبت، وإلا ثبت لا أنها تثبت بالمس ثم بالإنزال تسقط؛ لأن حرمة المصاهرة إذا ثبتت لا تسقط أبدا.(رد المحتار:3/ 33)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء،جامعۃالرشید،كراچی 12 رجب 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |