021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"آزاد ہو، جو دل کرتا ہے کرو، جس کے پاس جانا ہے، جاؤ” کہنے سے طلاق واقع ہونے کا حکم
83539طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

میرا سوال کنا یہ طلاق کے بارے میں ہےجو بغیر ارادہ  اور نیت کے ہو۔ مطلب شوہر کا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا اور نہ شوہر کو یہ علم تھا کہ ایسے الفاظ سے بھی طلاق ہوتی ہے اور تقریباً سال یا دو سال  بعد یہ علم ہوا کہ یہ  الفاظ بولنے سے طلاق ہوتی ہے ۔  شوہر کو وہم ہو گیا ہے کہ میں نے ایسا بول دیا، تو طلاق تو نہیں ہو گئی؟اور کنایہ الفاظ شوہر عادتاً بولتاہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر میاں بیوی ناراض ہوں ،خصوصاً شوہر ناراض ہو اور پرد یس میں  ہو اور بیوی شوہر کو منانے کیلئے بات کرے اور شوہر ضد کرے، بات نہ کرےاو ر بیوی اُسے منانے کی نیت سے یہ بولے کہ اگر دل نہیں کرتا بات کرنے کا اور محبت ختم ہو گئی ہے تو چھوڑ دو ،مجھے طلاق دے دو ،تاکہ شوہر کو احساس ہو اور بیوی کو یقین ہو کہ شوہر طلاق نہیں دے گا۔ اور بیوی بولے کہ ابھی دے دو طلاق، نکل جاؤ ں  گی تمہاری زندگی سے ،کبھی بات کرنے کو نہیں کہوں گی۔ اور شوہر عادتاً غصے میں بات کو ٹالنے کیلئے بولے کہ" آزاد ہو جو دل کرتا ہے کرو، جا ؤ دفعہ ہو جاؤ،جس کے پاس جانا ہے جاؤ "اور بیوی بولے کہ تو ابھی دوطلاق۔بول دو تین بار طلاق کا لفظ، دفعہ ہو جاؤں گی،کبھی نہیں بات کرنے کو بولوں گی ،تاکہ شوہر کو احساس ہو اور شوہر بولے کہ کوئی اور پسند آگیا ہے ،اس لئے طلاق مانگتی ہو اور بیوی بولے کہ تمہیں کیا  محبت نہیں، تم طلاق دوا بھی، اور شوہر کہے کہ جس سے محبت کرتی ہو، وہ بتاؤ ،تو طلاق دے دوں گا ،ورنہ نہیں دوں گا ،جو کرنا ہے کر لو، جو بولناہے بولتی رہو ،میرا دماغ خراب نہ کرو ۔ پھربیوی ادھر اُدھر سے کسی کی فوٹو لے کر شوہر کوبھیج دے کہ یہ ہے وہ لڑکا ، اب طلاق دو اور شوہر بولے کہ اس سے بات کرواؤ۔ اگر یہ کہے گا کہ تم اس سے بات کرتی ہو یا اس کے میسج دکھاؤ، جب مجھے پورا یقین ہوگا کہ واقعی تمہارا اس سے رابطہ ہے ،تو اُسی وقت طلاق دے دوں گا ،ورنہ نہیں دوں گا اور اب مجھ سے کوئی بحث نہ کرنا ،شرط بتا دی،  پھر بیوی سچ بتا دیتی ہے کہ کوئی نہیں، ایسے ہی  کسی کی فوٹو  فیس بک سے لے کر دکھا دی ۔ پھر وہ دونوں  راضی ہو گئے اور شوہر نے   بیوی سے کہا کہ طلاق کا مطالبہ نہ کیا کرو، کبھی غصے میں بول دیا ،تو ہم پوری زندگی کیلئے جدا ہو جائیں گے۔

یاشوہر کو منانے کیلئے بیوی میسج کرےکہ مجھ سےبات کرو   اورشوہر عادتاً بولے کہ" تنگ نہ کرو ،نہیں کرنی بات کوئی بھی،  دفعہ ہو جاؤ یا وہی الفاظ کہے کہ  نکل جاؤ میری زندگی سے"  اور یہ سب  کچھ عادتاًبولے اور ا سے پتہ نہ ہو کہ یہ طلاق کے کنایہ  الفاظ ہیں اور نہ طلاق کی نیت   کی ہو،تو کیا طلاق ہو جائے گی۔ یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں تھے، نہ میرا مطالبہ طلاق کا تھا،  تو کیا طلاق ہوگی؟

تنقیح:  سائلہ سے زبانی بات کرکے معلوم ہوا کہ وہ اپنے شوہر کو منانے اور احساس دلانے کے لیے بار بارطلاق دینے کا مطالبہ کررہی تھی اور شوہر جواب میں کبھی یہ  کہتا کہ جہاں جانا ہے، جاؤ، جس کے ساتھ رہنا  ہے،رہو، یا اس جیسے دوسرے الفاظ کہہ دیتا۔ یہ مکالمہ ایک ہی مجلس میں نہیں ہوا ہے ، بلکہ مختلف اوقات میں جاری رہا  ہے ، اور شوہر کی عام عادت ہے کہ وہ اس طرح کے الفاظ بولتا رہتا ہے  ،نیز سائلہ کے مطابق اس طرح کے سخت مکالمہ کے بعد بھی وہ دونوں  راضی ہوجاتے اور کال کرکے آپس میں  باتیں کرتے تھے، اور ہر تین مہینے بعد دونوں کی ملاقات بھی  ہوتی رہی ہے .

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ یہ جملے "آزاد ہو جو دل کرتا ہے کرو، جس کے پاس جانا ہے جاؤ"    طلاق کے باب میں کنائی  جملے ہیں ، ان  جملوں کے ذریعہ بغیر نیت کے طلاق  اُس وقت واقع ہوجاتی ہے، جب عرف (عام  رواج) میں یہ طلاق کے لیے متعین ہوں، یا  ان کا غالب استعمال طلاق ہی کے لیے ہو،اسی طرح اگر عرف میں یہ  طلاق کے لیے متعین  نہ ہوں ،لیکن شوہرنے طلاق کی نیت سے یہ جملے کہے ہوں ، یا عورت کی طرف سے بار بار طلاق کا مطالبہ ہو اور شوہر اُس کے جواب میں یہ جملے کہے، تو ان صورتوں میں بھی قضاء ًبیوی کو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ان  صورتوں میں اگر شوہر یہ دعوی کرے کہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی ، تو قضاء اس  کا دعوی معتبر نہیں ہوتا۔

     اس تمہید کی روشنی میں صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ   سائلہ کے مطابق   مذکورہ الفاظ "آزاد ہو، جو دل کرتا ہے کرو، جس کے پاس جانا ہے جاؤ"کا استعمال      ان کے عرف میں طلاق کے لیے غالب نہیں ہے ،  نیز شوہر کی عام عادت ہے کہ وہ معمول کے مطابق ٹالنے کے لیے بھی  اس جیسے الفاظ کہہ دیتا ہے ،تو ایسے میں ان الفاظ سے بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں  ہوگی، لیکن چونکہ سوال میں یہ صراحت  ہے کہ مذکورہ مکالمہ میں سائلہ اپنے شوہر کو منانے اور احساس دلانے کے لیے بار بارطلاق دینے کا مطالبہ کررہی تھی (سائلہ نے زبانی طور پر بھی اسی بات کا اعتراف کیا)اور شوہر نے اسی مطالبہ کے جواب میں یہ الفاظ کہے ہیں ، اس لئے شوہر نے بیوی کے مطالبہ طلاق پر جب پہلی بار اس طرح کے الفاظ کہے تھے، تو اس وقت  ان الفاظ سے قضاء ً ایک بائن طلاق واقع ہوگئی تھی ، اگرچہ وہ  یہ کہے کہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی ، پھر اس کے بعد جتنی بار بھی یہ الفاظ بولے ہوں ، ان سے کوئی اور طلاق واقع نہیں ہوئی، کیوں کہ ایک بائن طلاق کے بعد دوسری بائن واقع نہیں ہوتی ۔شوہر کو ایسی صورت میں رجوع کرنے کا حق نہیں، البتہ اگر شوہر نے اس سے پہلے یا بعد میں صریح الفاظ میں کوئی اورطلاق نہ دی ہو، تو  اب  وہ دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ عدت کے اندر یا اس کے بعد نکاح کرسکتے ہیں، اور اگر عورت کی طلاق کی عدت پوری ہوگئی ہے، تو وہ دوسری جگہ بھی اپنا نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/296):
الكنايات (لا تطلق بها)قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة  والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حراما......(وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 301):
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.
الفتاوى الهندية (8/ 316):
ثم الكنايات ثلاثة أقسام ( ما يصلح جوابا لا غير ) أمرك بيدك ، اختاري ، اعتدي ( وما يصلح جوابا وردا لا غير ) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري ( وما يصلح جوابا وشتما ) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة ( حالة ) الرضا ( وحالة ) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها ( وحالة ) الغضب، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي.
الاختيار((3/123:
ثم هي ثلاثة أقسام: منها ما يصلح جوابا لا غير، وهي ثلاثة: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي.
ومنها ما يصلح جوابا وردا لا غير، وهي سبعة: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، استتري، تخمري.ومنها ما يصلح جوابا وردا وشتيمة، وهي خمسة: خلية، برية، بتة، بائن، حرام. وعن أبي يوسف أنه ألحق بالقسم الأول خمسة أخرى: خليت سبيلك، سرحتك، لا ملك لي عليك، لا سبيل لي عليك، الحقي بأهلك.
والأحوال ثلاثة: حالة مطلقة وهي حالة الرضا، وحالة مذاكرة طلاقها، وحالة غضب.
أما حالة الرضا فلا يقع الطلاق بشيء من ذلك إلا بالنية لما تقدم، والقول قول الزوج في عدم النية لأنه لا يطلع غيره عليه والحال لا يدل عليه.وفي حال مذاكرة الطلاق يقع الطلاق قضاء ولا يصدق على عدمه إلا فيما يصلح جوابا وردا لأنه لا يحتمل الرد وهو الأدنى فيصدق فيه.وفي حالة الغضب يصدق إلا فيما يصلح جوابا لا غير، لأنه يصلح للطلاق الذي يدل عليه الغضب فيجعل طلاقا.
بداية المبتدي (ص: 78)
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔
تحفة الفقهاء (2/ 185):
وأما بيان أحكام الطلاق البائن فنقول منها إن كان واحدا يزول به ملك النكاح وتبقى المرأة محلا للنكاح بطلاقين حتى لا يحل له الاستمتاع بها ولا يصح الظهار والإيلاء ولا يجري التوارث ولا تحل إلا بتجديد النكاح.....  وإن كانت البينونة بالثلاث يزول الملك وحل المحلية جميعا حتى لا يحل له وطئها إلا بعد إصابة الزوج الثاني۔

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

22/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے