021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بلا وجہ قبروں کو مسمار کرنے کا حکم
83246جنازے کےمسائلمردوں اور قبر کے حالات کا بیان

سوال

جناب عالی  سے التماس ہےکہ ایک ذی شعور اور دینی و دنیاوی علم رکھنے والا شخص روکنے اور سمجھانے کے باوجود قبرستان کو بڑی بے دردی سے شاور مشین کے ساتھ شہید ومسمار اور بے پردہ کرے اور بہت ساری قبروں کو شہید کر کے مردوں کی ہڈیاں و کھوپڑیاں بھی تلف کر دے ،اور ایک قبر کے اندر مردہ کی کھو پڑی اور ہڈیاں بھی موجود  ہوں ،تو اس پر قرآن شریف کی آیات مبارکہ اور حدیث مبارکہ کا تفصیلا باقاعدہ حوالہ دے کر شرعی فتوی دیں اور شرعی مسئلہ بیان کریں تاکہ سب مسلمانوں کی اور بالخصوص جس شخص نے یہ فعل بد کیا ہے یا جن لوگوں نے اس فعل بد میں اس کا ساتھ دیا ہے تو بہ واستغفارکریں اور سب اپنی اصلاح کر سکیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں ایک مسلمان کا جس طرح اس کی زندگی میں  احترام وتکرم ضروری  ہے فوت ہو جانے کے بعد بھی احترام و تکرم برقرار رہتا ہے۔اسی احترام و تکرم کےپیش نظر جنازہ اور تجہیز و تکفین کے احکام وارد ہوئے ہیں۔میت کی حرمت کےمتعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کئی مقامات پر ارشادات فرمائے ہیں جیسے کہ میت کو گرم پانی سے غسل دینا ، جنازے کے لیے جاتے ہوئے آرام سے چلنا ،میت کے اعضاء سجود پر خوشبو لگانا،میت کی ہڈی وغیرہ توڑنے سے ممانعت، قبور پر ٹیک لگانے،اس ُ ُپر سونےاور چلنے سے ممانعت ،قبرستان  میں بول وبراز سے اجتناب وغیرہ سمیت دیگر احکام موجود ہیں۔

قبروں کو بلا وجہ مسمار کرنا بھی احترام انسانیت کے خلاف ہے لہذا قبروں کو بلاوجہ مسمار کرنا جائز نہیں ہے۔کسی بھی مسلمان کے لیے قبروں کی تحقیر اور بے حرمتی کرنا جائز نہیں ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے سے سختی سے منع فرمایاہے۔لہذا قبرستان میں مدفون انسانوں کی قبروں پر بلا وجہ  پاؤں رکھنا ،ان کے اوپر بیٹھنا ، ان کی توہین اور بے حرمتی کرنے کو علماء نے مکروہ کہا ہے، لہذا اس سے اجتنا ب لازم ہے۔البتہ ضرورت شدیدہ  کی وجہ سے مفاد عامہ کی خاطر  پرانی و بوسیدہ قبروں کو مٹانے کی اجازت ہے۔اور اس دوران کھدائی کرتے ہوئے اگر کچھ ہڈیاں ملیں تو انہیں وہیں مٹی میں چھپا دیا جائے۔اور قبور کو بلا وجہ محض کسی دنیاوی غرض سے مسمار کرنا قبور کی بے حرمتی ہے۔اورقبروں کی بے حرمتی کرنا بلاشبہ گناہ ہے جس سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔

اسلام میں قبور کی حرمت و تقدس کی تعلیم دی گئی ہے۔ شریعت میں ایک مسلمان کا بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ۔احادیث  مبارکہ میں بھی مردوں کے حقوق پر کافی ہدایات ملتی ہیں۔حضرت  عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس قبر والے کو ایذا نہ دے۔ اس طرح ایک روایت میں ہے میت کی ہڈی توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ٗ"قبروں پر مت بیٹھو اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو"۔ان نصوص سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی عزت و احترام ہر حالت میں واجب ہے۔  

حوالہ جات
روى الإمام مسلم رحمه الله تعالى عن أبي مرثد الغنوي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها".(صحيح مسلم:2/ 668)
روى الإمام أبو داود رحمه الله تعالى عن ابن مسعود، قال: سألنا نبينا صلى الله عليه وسلم عن المشي مع الجنازة، فقال: "ما دون الخبب إن يكن خيرا تعجل إليه، وإن يكن غير ذلك فبعدا لأهل النار، والجنازة متبوعة، ولا تتبع ليس معها من تقدمها".(سنن أبي داود:3/ 206 )
روى الإمام مسلم رحمه الله تعالى عن جابر قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر، وأن يقعد عليه، وأن يبنى عليه ".(صحيح مسلم:3/ 62)
روى الإمام أبو داود رحمه الله تعالى: عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "كسر عظم الميت ككسره حيا".(سنن أبي داود:3/ 213 )
روى الإمام محمد رحمه الله تعالى:قال: أخبرنا أبو حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، قال: كان عبد الله بن مسعود رضي الله عنه يقول: "لأن أطأ على جمرة أحب إلي من أن أطأ على قبر متعمدا" . قال محمد: وبه نأخذ، يكره الوطأ ‌على ‌القبور متعمدا، وهو قول أبي حنيفة رضي الله عنه. (الآثار لمحمد بن الحسن:2/ 202)
قال العلامۃ الزیلعی رحمه الله تعالى : ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد عليه أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو يقضى عليه حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه أو يصلى إليه أو يصلى بين القبور ؛لحديث جابر أنه عليه الصلاة والسلام "نهى أن يجصص القبر، وأن يقعد عليه، وأن يبنى عليه، وأن يكتب عليه، وأن يوطأ عليه"، وقال عليه الصلاة والسلام:"لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص إلى جلده خير له من أن يجلس على قبر". ونهى عليه الصلاة والسلام عن اتخاذ القبور مساجد....... ولو بلی المیت وصار تراباً ، جاز دفن غیرہ فی قبرہ وزرعہ والبناء علیہ. (تبيين الحقائق :1/ 246)
 قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وفي التبيين، ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه. اهـ.وفي الواقعات عظام اليهود لها حرمة إذا وجدت في قبورهم كحرمة عظام المسلمين حتى لا تكسر؛ لأن الذمي لما حرم إيذاؤه في حياته لذمته فتجب صيانة نفسه عن الكسر بعد موته اهـ.(البحر الرائق:2/ 210)
قال العلامۃ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالی :ويكره الدفن في الأماكن التي تسمى فساقي والجلوس على القبر ووطؤه، وحينئذ فما يصنعه الناس ممن دفنت أقاربه، ثم دفن حواليهم خلق من وطء تلك القبور إلى أن يصل إلى قبر قريبه مكروه. ويكره النوم عند القبر وقضاء الحاجة، بل أولى وكل ما لم يعهد في السنة.(فتح القدير:2/ 141)
قال العلامة السهارنفوري رحمه الله تعالى:...... أنه سمع جابرًا يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى أن يُقْعَدَ على القبر". قال القاري : بالبناء للمفعول، قيل: للتغوط وللحدث، وقيل: للإحداد، وهو أن يلازم القبر ولا يرجع عنه، وقيل: مطلقًا؛ لأن فيه استخفافًا بحق أخيه المسلم وحرمته.وقال الطيبي: المراد من القعود هو الجلوس كما هو الظاهر، وقد نهى عنه؛ لما فيه من الاستخفاف بحق أخيه المسلم، وحمله جماعة على قضاء الحاجة، ونسبوه إلى زيد بن ثابت.والأول هو الصحيح؛ لما أخرجه الطبراني والحاكم عن عمارة بن حزم قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسًا على قبر فقال: "يا صاحب القبر! أنزل عن القبر، لا تؤذي صاحب القبر، ولا يؤذيك". وأخرج سعيد بن منصور، عن ابن مسعود أنه سئل عن الوطء على القبر قال: "كما أكره أذى المؤمن في حياته، فإني أكره أذاه بعد موته".(بذل المجهود :10/ 514)

ہارون  عبداللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

   16رجب1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے