82799 | نکاح کا بیان | حرمت مصاہرت کے احکام |
سوال
حنفیہ کے مذہب پر ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو صرف چھونے سے حرمت کے قائل ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مس کے ساتھ انزال ہو جائے تو حرمت ثابت نہیں ہوتی،یہ تو کھلا تضاد ہوا۔حالانکہ جب صرف چھونے سے حرمت ثابت ہو رہی ہے تو انزال کی صورت میں تو یقینی طور پر حرمت ثابت ہونی چاہیے ۔اس کی وضاحت فرما دیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
فقہی ضابطہ ہے کہ الٓأصل فی الأبضاع الحرمۃ لہذا اس ضابطے کے تحت شبہ کو بھی حقیقت کے قائم مقام سمجھا گیا ہے ۔لہذا جہاں حرمت فرج کا ہلکا سا بھی شبہ ہو گا وہاں اس شبہ کو حقیقت کا حکم دے کر اس کو حرام قرار دیا جائے گا۔ حنفیہ اسی احتیاط کے مدنظر یہ حکم لگاتے ہیں کیونکہ مس کرنا ان اسباب میں سے ہے جو زنا تک لے جاتا ہے لہذا فقہی ضابطے کے موافق اس سبب کو ہی زنا کے قائم مقام سمجھا جائے گا البتہ اگر چھوتے ہوئے انزال ہو جائے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ انزال کے بعد یقینی بات ہے کہ ا ب یہ چھونا وطی تک پہنچانے والا نہیں ہے لہذا حرمت بھی ثابت نہ ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ السغناقی رحمه الله تعالى:فكذلك في إثبات الحرمة فيقام مقامه في موضع الاحتياط أي فيقام المس أو النظر مقام الوطء في إثبات حرمة المصاهرة ؛لأنّ حرمة الفرج ممّا يحتاط فيها أكثر ممّا يحتاط في غيرها حتّى أن شبهة البعضيّة بسبب الرضاع قامت مقام حقيقة البعضيّة في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام من التوارث ومنع وضع الزكاة ومنع قبول الشّهادة ،وكذلك لا يقوم المس أو النّظر مقام الوطء في إفساد الصّوم والإحرام ووجوب الاغتسال وإن قام مقامه في حق إثبات حرمة المصاهرة.(النهاية:7/ 30)
قال العلامة ابن عابدین رحمه الله تعالى :فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي.......قوله: (فلا حرمة)؛ لأنه بالإنزال تبين أنه غير مفض إلى الوطء، هداية. قال في العناية: ومعنى قولهم إنه لا يوجب الحرمة بالإنزال أن الحرمة عند ابتداء المس بشهوة كان حكمها موقوفا إلى أن يتبين بالإنزال، فإن أنزل لم تثبت، وإلا ثبت لا أنها تثبت بالمس ثم بالإنزال تسقط؛ لأن حرمة المصاهرة إذا ثبتت لا تسقط أبدا. ( رد المحتار:3/ 33)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
12رجب1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |