82660/63 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
محترم مفتی صاحب ! ایک شرعی مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ زید کے والد کا انتقال ہوا ہے اور ورثہ میں ایک بیوہ ،پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔شریعت کے مطابق ان میں میراث کیسے تقسیم ہو گی ؟رہنمائی فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔
تنقیح: سائل کے مطابق میت کے مذکورہ ورثہ کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے پہلے تجہیز وتکفین کامعتدل خرچہ (اگركسی وارث نے یہ خرچہ بطورتبرع نہ کیا ہو ) اداکیاجائےگا،پھر مرحوم کاقرضہ اداکیاجائےگا،تیسرے نمبر پر اگرمرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے اپنے مال میں سے تہائی حصہ تک وصیت کی ہے تو اسے اداکیاجائے،اس کےبعدموجود ورثہ میں میراث تقسیم کی جائےگی۔موجودہ صورت میں مرحوم کےمال میں سابقہ تینوں حقوق ادا کرنےکےبعد جو ترکہ بچ جائے اس کو بہتر(72) برابر حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو نو،دونوں بیٹوں کو چودہ چودہ اور پانچوں بیٹیوں کو سات سات حصے دیے جائیں گے ۔
فیصد کے اعتبار سے بیوہ کا حصہ٪ 5ء12،ہر ہر بیٹے کا حصہ ٪4ء19 اور ہر ہر بیٹی کا حصہ ٪7ء9 ہو گا۔
نقشہ برائے تقسیم میراث:
نمبر شمار |
تفصیل ورثہ |
فیصدی حصہ |
1 |
بیوہ |
٪5ء12 |
2 |
ایک بیٹا |
٪4ء19 |
3 |
دوسرا بیٹا |
٪4ء19 |
4 |
پہلی بیٹی |
٪7ء9 |
5 |
دوسری بیٹی |
٪7ء9 |
6 |
تیسری بیٹی |
٪7ء9 |
7 |
چوتھی بیٹی |
٪7ء9 |
8 |
پانچویں بیٹی |
٪7ء9 |
حوالہ جات
قال الله تعالى:للذكر مثل حظ الأنثيين.(النساء:١١)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:وللزوجة الثمن.(رد المحتار:٦/٨٠٢)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:للبنات ستة أحوال ثلاثة...وإذا كان معهن ذكر عصبهن.(رد المحتار:٦/٧٧٢)
احسن ظفر قریشی
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
3 رجب المرجب 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |