021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھریلو مشترکہ فنڈ کا حکم
83474/63وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

ہم  سات  بہن بھائی اور ان کی شادی شدہ و غیر شادی شدہ اولادوں پر مشتمل ایک خاندان ہیں۔ہم سب اپنے الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں ۔ ایک بھائی کا انتقال ہو چکا ہے ،مگر ان کی  بیوہ اور بچے بھی الگ گھر میں رہتے ہیں ۔ سب اپنے اپنے شغل ،کاروبار اور ملازمت میں لگے ہوئے  ہیں۔ ہر شخص اپنے  ماہانہ خرچے میں سے کچھ نہ کچھ بچت کر لیتا ہے ۔ہم سب نے ایک باہمی سوچ و فکر کے بعد ، اپنی اپنی بچت سے کم از کم تین سو روپے ماہانہ ایک مشترکہ بچت فنڈ قائم کرنے کا سوچا ہے ۔ جس کی تفصیل درجہ ذیل  ہے:

1۔ یہ فنڈ گھریلو سطح کی غیر منافع بخش اسکیم ہے   جس کے کوئی کاروباری  مقاصد نہیں۔

2۔اس اجتماعی فنڈ کو باہمی  رضا مندی کے ذریعے اپنی انفرادی یا اجتماعی ضروریات میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

3۔اس فنڈ سے خاندان کا ہر فرد فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

4۔اس فنڈ کو چلانے کے لیے ایک امین مقرر ہو گا اور ان کے ساتھ خاندان کے پانچ ،چھ بڑوں پر مشتمل ایک کمیٹی ہو گی جو امین کو فیصلہ کرنے میں مدد دے گی اور مشورے دے گی۔

5۔اس فنڈ میں ہر فرد یا جس کی عمر کم از کم سات سال ہے اپنی ماہانہ بچت سے کم از کم تین سو روپے جمع کروائے گا۔

6۔خزانچی ہر ماہ فنڈ کا حساب امین کو پیش کر کے دستخط لے گا۔

7۔کم از کم سال میں دو مرتبہ  سب شرکاء کے سامنے فنڈ کا حساب پیش کیا جائے گا۔

8۔جس ممبر کو قرض چاہیے ہو  اس کو مجموعی فنڈ کا چالیس سے ساٹھ فیصد تک مل سکتا ہے۔

9۔ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ تین ممبرز کو  برابر یا ضرورت کے مطابق قرض دیا جائے گا ۔

10۔قرض  دار  اپنی سہولت کے مطابق واپسی  کی میعاد مقرر کر سکتا ہے۔

11۔خاندان میں کسی لڑکی کی شادی ہو تو فنڈ میں سے اس کے لیے   پچیس سے چالیس فیصد اور لڑکے کی شادی ہو   پندرہ سے بیس فیصد  رقم تمام ممبران کی  طرف سے تحفہ ہو گی۔

12۔شادی کے موقع پر لڑکے کو ساٹھ فیصد قرض  بھی دیا جا سکتا ہے جو سو فیصد قابل واپسی ہو گا۔

13۔اگر کسی قرض دار  ممبر کو لا علاج بیماری لاحق ہو جائے تو   اس کا قرض معاف کر دیا جائے گا اور اس کی جمع شدہ رقم واپس کر دی جائے گی۔

14۔اگر کسی ممبر کا انتقال ہو جائے تو اس کی آخری رسومات فنڈ سے ادا کی جائیں گی۔

15۔اگر کوئی ممبر الگ ہونا چاہے تو وہ واجبات کی ادائیگی کے بعد کل جمع شدہ رقم لے کر الگ ہو سکتا ہے۔

آپ حضرات سے ہم بہن بھائیوں  کی التماس ہے  کہ کیا   ہماری یہ  سوچ وفکردین و شرع  کے مطابق ہے ؟ کیا یہ ہماری باہمی مالیاتی تعاون پر مبنی تجویز قابل عمل ہے یا نہیں ؟ کیا کوئی شق یا کوئی بات دین و شرح سے متصادم تو نہیں ہے ؟اگر کوئی بات یا شق دین و شرع سے متصادم ہوتو   اسکی متبادل تجویز کیا ہو سکتی ہے ؟آپ حضرات کی محبت ، شفقت اوردعاؤںکےمنتظر۔                                                                                  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے سے کوئی فنڈ بنانا   جائز اور  باعث اجر و ثواب ہے ۔مذکورہ فنڈ میں جو پیسے جمع کیے جائیں گے وہ  جب تک کسی مصرف  پر خرچ نہ کیے جائیں  وہ فنڈ دینے والوں کی ملک میں رہیں گے ،لہذا سال گزر جانے کی صورت میں اگر وہ رقم زکاۃ کے نصاب تک پہنچتی ہے تو اس پر زکاۃ بھی لازم ہو گی اور وراثت کے احکام بھی جاری ہوں گے ۔اس  کی ایک متبادل صورت یہ ہے کہ صدقہ پر مبنی فنڈ ہو  اور کوئی فنڈ مینیجر ہو تو اس صورت میں وہ رقم فنڈ دینے والوں کی ملکیت سے نکل جائے گی ،لہذا   زکاۃ اور وراثت کے احکام جاری نہ ہوں گے۔فنڈ میں درج ذیل امور کا خیال رکھا  جائے :

1۔ شرکاء میں سے جس کو ضرورت ہو  منتظمین اس   کو   ضرورت کے مطابق   دینے کا فیصلہ کریں گے ۔جسے قرض کی ضرورت ہو اسے ضرورت کے مطابق قرض بھی دیا جا سکتا  ہے اور جو ضرورت مند ہو اس  کی مالی مدد بھی کی جا سکتی ہے۔پہلے سے حد بندی کی ضرورت نہیں ۔اگر منتظمین مناسب سمجھیں تو شرکاء کے علاوہ بھی کسی کی مدد کی جا سکتی ہے اور اس کو قرض بھی دیا جا سکتا ہے۔

2۔ فنڈ سے الگ ہونے کی صورت میں کوئی ممبر  اپنی جمع شدہ رقم واپس نہیں لے سکتا   ۔

3۔کسی  رشتے دار کو فنڈ کا ممبر بننے پر مجبور نہ کیا جائے اور ممبر نہ بننے پر طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جائے۔نیز وہ ضرورت مند ہو تو اس کی  فنڈ سے مدد بھی کی جائے۔

4۔فنڈ وصول کرتے ہوئے امیر و غریب کا فرق کرنا چاہیے  اور اگر کوئی ممبر مالی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے کم پیسے جمع کرواتا ہے تو اس کی بھی گنجائش رکھنی چاہیے۔

5۔کسی رشتے دار کا انتقال ہو جائے تو گھر والوں کے لیے  ایک دن کے کھانے کا انتظام کرنا چاہیے ۔

6۔فند کو صرف  قرض تک محدود نہ کیا جائے  اور صرف فنڈ ممبران تک محدود نہ کیا جائے بلکہ خاندان میں جو بھی ضرورت مند ہو اس کی مدد کی جائے۔

7۔نابالغ بچوں سے فنڈ نہ وصول کیا جائے،بلکہ صرف بالغ افراد  سے وصول کیا جائے ۔

8۔کسی کی مدد کر کے احسان نہ جتلایا جائے۔

حوالہ جات
قال الإمام البخاري رحمه الله تعالى:عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا، ثم شبك بين أصابعه.(صحيح البخاري :٨/١٢،رقم الحديث:٦٠٢٦)
عن عبد الله بن جعفر رضي الله عنه  قال: لما جاء ‌نعي ‌جعفر، قال النبي صلى الله عليه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم.(سنن الترمذي:٣/٣١٤.رقم الحديث:٩٩٨)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:قوله : (وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح :ويستحب ‌لجيران ‌أهل ‌الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم :اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم ،حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون.(رد المحتار:٢/٢٤٠)
قال الله تعالى: يا أيها الذين آمنو ‌لا ‌تبطلو ‌صدقاتكم بالمن والأذى.(البقرة:٢٦٤)
الصدقة بمنزلة الهبة في المشاع وغير المشاع وحاجتها إلى القبض، إلا أنه لا رجوع في الصدقة إذا تمت ويستوي إن تصدق على غني أو فقير في أنه لا رجوع فيها ومن أصحابنا رحمهم الله تعالى من يقول الصدقة على الغني والهبة سواء، كذا في المحيط.(الفتاوى الهندية:٤/٤٠٦)

احسن ظفر قريشی

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید، کراچی

14 شعبان المعظم  1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے