83476 | تقسیم جائیداد کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
مفتی صاحب اراضی کی تقسیم سے متعلق مسئلہ درپیش ہے جس کے لیے راہنمائی مطلوب ہے کہ سکندر خان مرحوم قطعہ اراضی تقریبا 153 مرلہ کے مالک تھے ،جبکہ انکی وفات 1949 میں ہوئی اور انکی اولاد میں درج ذیل چار بیٹے ہیں:
1. نذیر احمد مرحوم
2.بشیر احمد
3۔صغیر احمد مرحوم
4۔ تنویر احمد مرحوم
ان چاروں بیٹوں کو وراثت میں تقریباً 153 مرلہ حصہ ملا۔ بعد ازاں 1968 میں صغیر احمد مرحوم یک از پسران سکندر خان مرحوم نے اسی جدی اراضی والے خسرہ نمبر میں اپنی چچا زا د بہنوں سے جو جدی مالکان تھیں خرید کی۔ سال 1974 میں پسران سکندر خان کی کل جائیداد جدی 153 مرلہ اور صغیر احمد کی خرید کردہ 91 مرلہ کل 244 مرلہ انکے ماموں افتخار احمد نے جعلی انتقال کے ذریعہ سے اپنے بیٹے کے نام منتقل کرا لی۔ سال 2000 میں پسران سکندر خان نے اپنے ماموں سے اراضی کا مطالبہ کیا اور بوجہ انکار کیس دائر کیا کہ ہم نے اراضی ہبہ نہ کی تھی اور یہ ساری کاروائی جعلی ہے اور اپریل 2023 میں سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ صادر کیا اور انتقال منسوخ کر دیا۔1974 سے لیکر اب تک اس 244 مرلہ اراضی میں سے 34 مرلہ اراضی پسران سکندر خان کے ماموں بیچ چکے تھے اور تقریباً 31 مرلہ اراضی جن لوگوں کے گھر ساتھ لگتے تھے انھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔اور 21 مرلہ اراضی گم ہو گئی تھی ،لہذا اس وقت کاغذات مال میں پسران سکندر خان کے نام 244 مرلہ کی بجائے 223 مرلہ اراضی درج ہوئی ہے۔ جبکہ 21 مرلہ اراضی گم ہو گئی ہے۔ اور موقع پر صرف 146 مرلہ اراضی خالی ہے جبکہ 34 + 31 کل 65 مرلہ اراضی پہ دیگر اشخاص کا قبضہ ہے۔اب مسئلہ تنازعہ یہ ہے کہ مذکورہ اراضی کی تقسیم کس طرح کی جائے؟صغیر احمد مرحوم کے بھائیوں کا مطالبہ ہے کہ جو 146 مرلہ جگہ خالی ہے وہ جدی اراضی تصور کی جائے اور سکندر خان کے چاروں بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے جبکہ 34+31 کل 65 مرلہ اراضی زیر قبضہ دیگر افراد اور 21 مرلہ اراضی جو گم ہے یہ سب صغیر احمد کی خرید کردہ 91 مرلہ میں تصور کی جائے گی اور اس میں ایڈجسٹ کی جائے گی۔جبکہ صغیر احمد مرحوم کے وارثان کا موقف ہے کہ یہ تمام 244 مرلہ اراضی مشترکہ کھاتہ ہے اس لیے تمام 31+34 کل 65 مرلہ تجاوزات اور جو 21 مرلہ اراضی گم ہے وہ صرف صغیر احمد مرحوم کی غلطی اور لاپرواہی کے سبب نہ ہوئی بلکہ ان کے تمام بھائیوں نے بھی اراضی کی دیکھ بھال نہ کی اس وجہ سے تمام بوجھ صغیر احمد پرڈالنا درست نہیں ہےاور یہ بوجھ بھی چاروں بھائیوں پر بمطابق تناسب ملکیت آئے گا۔گزارش ہے کہ مسئلہ ہذا میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ اراضی کی تقسیم شریعت کی روشنی میں کس طرح کی جائے۔
وضاحت: سکندر خان کے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹے بشیر احمد حیات ہیں، جبکہ باقی تین کی وفات ہو چکی ہے جنکی تفصیل درج ہے:
نذیر احمد مرحوم 2019 میں فوت ہوئے۔ انکے وارثان میں 1 بیٹا، 4 بیٹیاں اور ایک بیوہ ہے ،سب حیات ہیں۔
صغیر احمد مرحوم 2009 میں فوت ہوئے ۔انکے وارثان میں 2 بیٹے، 2 بیٹیاں، اور ایک بیوہ ہیں، سب حیات ہیں۔
تنویر احمد مرحوم 2011 میں فوت ہوئے ۔ انکے وارثان میں ایک بیٹا، 1 بیٹی اور بیوہ ہے، سب حیات ہیں۔
اسکندر خان کی اہلیہ کا انتقال 1980 میں ہوا۔
اسکندر خان کی وفات کے وقت ان کی والدہ زندہ تھیں جن کا انتقال 1959 کو ہوا اور ان کے ایک بیٹے محمد قاسم ان کے وارث ہیں جن کی وفات 1960 میں ہوئی اور ان کے انتقال کے وقت تین بیٹے اور دو بیٹیاں اور زوجہ زندہ تھیں اور زوجہ کا انتقال 1980 کی دہائی میں ہوا۔
مستفتی کے بیان کے مطابق جو ورثہ چاہتے ہیں کہ قبضہ شدہ زمین صغیر احمد کے 91 مرلے میں سے تصور کی جائے ان کے پاس اس بات کا کوئی جواز نہیں،کیونکہ چاروں بھائیوں نے ہی اراضی کی دیکھ بھال نہیں کی ۔نیز زمین گم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ محکمہ مال میں اس کا ریکارڈ گم گیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے پر بہت سخت وعید ہے ،لہذا جن لوگوں نے زمین پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے ان کو چاہیے کہ آخرت کی فکر کرتے ہوئے وہ زمین اصل مالکان کے حوالے کریں ۔
اگر صور ت مسئولہ واقعہ کے مطابق ہے تو صغیر احمد مرحوم نے چونکہ اپنی 91 مرلہ زمین کو موروثی 153 مرلہ زمین سے الگ نہیں کیا تھا اور حدود اربعہ کی تعیین نہیں کی تھی تو قبضہ شدہ اور کاغذات میں درج نہ ہو سکنے والی 86 مرلے زمین کا نقصان صرف صغیر احمد کے ورثہ برداشت نہیں کریں گے بلکہ سب شرکاء اس کو برداشت کریں گے۔
موجودہ صورت میں موجود ورثہ (بشیر احمد،صغیر احمد مرحوم کی زوجہ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں،تنویر مرحوم کی زوجہ ،ایک بیٹا اور ایک بیٹی،نذیر احمد مرحوم کی زوجہ ،ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ،قاسم مرحوم کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں) میں 153 مرلے اراضی تقسیم کی جائے گی۔
صغیر احمد مرحوم کی 91 مرلہ زمین کو چھوڑ کر بقیہ 153 مرلے زمین جو اسکندر خان مرحوم کے ترکہ میں ورثہ کے پاس آئی اس کی تقسیم اس طرح ہو گی کہ بشیر احمد کو 87.31 مرلے ،صغیر احمد مرحوم کی زوجہ کو 98.3 مرلے ،صغیر احمد کے دونوں بیٹوں کو علیحدہ علیحدہ 30.9 مرلے ،صغیر احمد مرحوم کی دونوں بیٹیوں کو علیحدہ علیحدہ 647.4 مرلے ،تنویر احمد مرحوم کی زوجہ کو 98.3 مرلے، تنویر احمد مرحوم کے بیٹے کو 59.18 مرلے ، تنویر احمد مرحوم کی بیٹی کو 29.9 مرلے ، نذیر احمد مرحوم کی زوجہ کو 98.3 مرلے،نذیر احمد کے بیٹے کو 30.9 مرلے ،نذیر احمد مرحوم کی چاروں بیٹیوں کو علیحدہ علیحدہ 647.4 مرلے ،قاسم مرحوم کے دونوں بیٹوں کو علیحدہ علیحدہ 375.6 مرلے اور دونو ں بیٹیوں کو 177.3 مرلے زمین ملے گی۔
صغیر احمد مرحوم کی 91 مرلہ زمین ان کی زوجہ ،دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہو گی ۔زوجہ کو 55.7 مرلے،دونوں بیٹوں کو علیحدہ علیحدہ 6.17 مرلے اور دونوں بیٹیوں کو علیحدہ علیحدہ 81.8 مرلے زمین ملے گی۔
حوالہ جات
أخرج الإمام مسلم في "صحيحه" (٥/٥٧،الحديث رقم :١٦١٠)من حديث سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين.
رجل استعار شيئا أو غصبه فعليه أن يرده على صاحبه.(الجامع الكبير لٌمحمد بن الحسن:٣٤٢)
الوضيعة على قدر المال .(رد المحتار:٤/٣١٣)
فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن.(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٦/٧٧٠)
(وللأم) ثلاثة أحوال: (السدس مع أحدهما أو مع اثنين من الأخوة أو) من (الأخوات) فصاعدا من أي جهة كانا ولو مختلطين والثلث عند عدمهما وثلث الباقي مع الأب وأحد الزوجين.
(الدر المختار مع حاشية رد المحتار:٦/٧٧٢)
ويعطى للذكر ضعف الأنثى.(رد المحتار:٦/٧٩٥)
احسن ظفر قریشی
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
11 شعبان المعظم 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |