021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایف بی اے ہول سیل کاروبار کا حکمFBA wholesale business order
83301شرکت کے مسائلمعاصر کمپنیوں کے مسائل

سوال

ای کامرس آنلائن پراڈکٹ کی خریدوفروخت کو کہتے ہیں جس میں بڑی ویب سائٹس Amazon,Ebay, Walmart,Etsyہیں ۔ہمارا لنک ان تمام ویب سائٹس سے ہے اور ان تمام ویب سائٹس کے ذریعے امریکا،کینڈا،اور یورپ میں اپنی اشیا کو فروخت کرتے ہیں جس میں زیادہ تر کچن گیجٹس شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ملتان کی حد تک Aamexpress کے نام سے اپنی ویب سائٹ ہے جس میں مختلف سروسز مہیا کی جاتی ہیں  اور اس سے آنے والی آمدن کو اپنے پرافٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا بزنس ہے جس میں نقصان کا تناسب صرف 2 فیصد ہے اور الحمدللہ 2 سالہ تاریخ میں کبھی نقصان نہیں ہوا۔اس ای کامرس بزنس میں انوسٹمنٹ زیادہ تر علماء حضرات کی ہوتی ہے جن کی تعداد تقریبا 1900 ہے اور کمپنی کی اپنی انوسٹمنٹ  اس میں ساڑھے چھ کروڑ ہیں۔ ہمارا انوسٹرز حضرات کے ساتھ معاملہ مشارکہ کی  بنا پر ہوتا ہے۔اس بزنس میں آنے والے تمام تر نفع  میں سے پچاس فیصد  کمپنی رکھتی ہے اور پچاس فیصد نفع  سرمایہ کاروں  میں ان کی سرمایہ کاری  کی بقدر برابر تقسیم کر دیا جاتا ہے اگر کوئی نقصان ہوتا ہے اس میں بھی سرمایہ کار ہمارے ساتھ برابر کے ہی شریک ہوں گے جس طرح منافع میں برابر کے شریک ہیں ۔

 Aamclick     در اصل  FBR سے رجسٹرڈ ہے .اس ادارے کو چلانے والے کا نام حافظ محمد عقیل ہے ۔ ملتان سے تعلق ہے بزنس سٹی پلازہ میں آفس ہے۔ خود عالم دین ہے اور اس میں انوسٹمنٹ کرنے والوں کی اکثریت علماء حضرات کی ہے جن  کی تعداد تقریبا انیس سو ہے اور اس کاروبار کو ماہر اور تجربہ کار حضرات ڈیل کرتے ہیں اور اس ویب کے اونر کا 8 سالہ ای کامرس کا تجربہ ہے جبکہ اس ویب سائٹ کو بنے تقریبا 3 سال ہو چکے  ہیں۔ الحمدللہ 3 سال سے کسی ماہ نقصان میں کمپنی نہیں گئی ،لیکن نقصان کا 2 فیصد خدشہ پھر بھی برقرار ہے۔ ان 3 سالوں میں کاروبار میں کم از کم پرافٹ اگر کسی نے لاکھ روپیہ انوسٹمنٹ جمع کروائی ہے تو اس کو 4 ہزار ہوا  ہے۔ زیادہ سے زیادہ 7500  تک  پرافٹ  ہوا  ہے ۔

چند شرائط:

1۔کم از کم سرمایہ کاری  10 ہزار تک کروا سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ کی کوئی لمٹ نہیں۔

2۔نفع  ہر ماہ کی یکم  کو اور 15 تاریخ کو نکلوا سکتے ہیں۔

3۔ہر سرمایہ کار Aamclick میں اپنا اکاؤنٹ بنانے کا پابند ہے جس پر وہ اپنا یومیہ پرافٹ دیکھ سکتا ہے۔

4۔سرمایہ کار  اپنا  نفع بھی اپنے aamclick اکاؤنٹ میں رکھے   گا جو  کہ جازکیش ایزی پیسہ یا کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں لے سکتا ہے۔

نوٹ: جاز کیش ایزی پیسہ میں صرف 6 ہزار تک کا ودڈرا لے سکتے ہیں 6 ہزار سے زائد کا ودڈرا بینک اکاؤنٹ میں لے سکتے ہیں ضروری نہیں بینک اکاؤنٹ آپ کا اپنا ہو دوست احباب کا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

5۔جو رقم  جمع کروائیں گے اگر اس  رقم  کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور اسرمایہ کار  اس کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اگر رقم   جمع کروائے ہوئے  6 ماہ نہیں گزرے تو رقم  کے لیے ان کو 40 دن کمپنی کو دینے ہوں گے اور اگر 6 ماہ بعد مطالبہ کرتا ہے تو 12 دن میں ان کی رقم  مل جائے  گی۔

نوٹ: ارقم  واپسی کی ریکسٹ یکم سے 5 تک لگا سکتے ہیں۔

6۔رقم  جمع کروانے پر ضمانت کے  طور پر کمپنی سے چیک یا اسٹام پیپر لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔

7۔اسرمایہ کاری  کے 40 دن بعد اگر  جمع کروائی گئی رقم  کی   70 فیصد رقم کے مطابق کوئی چیز  قسطوں  پر لینا چاہیں تو وہ بھی لے سکتے ہیں۔

نوٹ: 20 تاریخ سے قبل اس چیز کی ریکسٹ لگانا لازمی ہے 20 سے قبل ریکسٹ لگائیں گے تو 5 تاریخ کو مل جائے گی۔

8۔انوسٹمنٹ جمع کروانے کے بعد اگر کسی بھی قسم کا مسئلہ ہو تو بھائی عقیل سے ڈائریکٹ واٹس ایپ یا کال پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

9۔انوسٹمنٹ جمع کروانے کے بعد انوسٹرز حضرات کے مخصوص واٹس ایپ گروپ میں بھی شامل ہو سکتے ہیں جس کے ایڈ من بھائی عقیل خود ہیں۔

10سرمایہ کاری  کی رقم کم از کم 10 ہزار رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کم از کم سرمایہ کاری  کروا کر کام کو دیکھنا چاہتے ہیں سمجھنا چاہتے سمجھ سکتے ہیں اگر سمجھ میں نہ آئے تو رقم واپس نکلوا سکتے اگر دل مطمئن ہو جائے  تو مزید انوسٹ کروانا چاہیں تو وہ بھی کروا سکتے ہیں۔

11۔کمپنی ان شرائط میں تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے، لیکن اس کے لیے کمپنی 14 دن پہلے انوسٹر حضرات کو مطلع ضرورکرے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ اس  کمپنی میںسرمایہ کاری  کرنا کیسا ہے؟۔

وضاحت:مستفتی نے بتایا کہ وہ ایمازون پر FBA  ہول سیل کا کام کرتے ہیں جس میں وہ اپنا سامان خرید کر ایمازون کے اسٹور میں رکھتے ہیں اور  سامان کو اسٹور کرنے،پیک کرنے اور گاہک تک پہنچانے میں ایمازون کی سروس حاصل کرتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ کی کمپنی SECP سے رجسٹرڈ ہے اورلوگوں سے  پیسے لے کر کاروبار میں لگانے کی مجاز ہے  اور مستند ادارے سے شریعہ کمپلائنس ہے تو اپنے تمام قانونی کاغذات لے کر کسی دار الافتاء سے رابطہ کریں اور اپنا طریقہ سمجھا کر کوئی فتوی لیں۔عام طور پر حکومت کی جانب سے  عوام سے بڑے پیمانے پر پیسے لینے کی اجازت نہیں ہوتی  ،لہذا محض اس  استفتاء میں بیان کردہ تفصیل پر کوئی حکم لگا کر لوگوں کی رقوم کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا ۔خاص طور پر ابھی  ماضی قریب میں  ہی مضاربہ اسکینڈل میں عوام اپنی بڑی رقوم ضائع کر چکے ہیں۔

حوالہ جات
قوله:  (وصحت) أي: شركة الأموال سواء كانت مفاوضة أو عنانا بقرينة .(رد المحتار:٤/٣١٠)
وفي الدرر: لا يستحق الربح إلا بإحدى ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل.(الدر المختار :٤/٣٢٤)
(وأما) الكلام في الشركة بالأموال: فأما العنان فجائز بإجماع فقهاء الأمصار؛ ولتعامل الناس ذلك في كل عصر من غير نكير... وهذا النوع طريق صالح للاستنماء فكان مشروعا؛ ولأنه يشتمل على الوكالة، والوكالة جائزة إجماعا.(بدائع الصنائع:٦/٥٨)
(أما) الشرائط العامة فأنواع: (منها) أهلية الوكالة؛ لأن الوكالة لازمة في الكل وهي أن يصير كل واحد منهما وكيل صاحبه في التصرف بالشراء والبيع وتقبل الأعمال؛ لأن كل واحد منهما أذن لصاحبه بالشراء والبيع، وتقبل الأعمال مقتضى عقد الشركة والوكيل هو المتصرف عن إذن فيشترط فيها أهلية الوكالة لما علم في كتاب الوكالة.
(ومنها) : أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة.
(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.بدائع الصنائع :٦/٥٩)
استحقاق الربح في الشركة بالأعمال بشرط العمل لا بوجود العمل، بدليل أن المضارب إذا استعان برب المال استحق الربح، وإن لم يوجد منه العمل؛ لوجود شرط العمل عليه، والوضيعة على قدر المالين؛ لما قلنا، وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال.ولا عمل ولا ضمان؛ وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة وإن كان المالان متفاضلين.(بدائع الصنائع:٦/٦٣)
قال جمع من المؤلفين رحمهم الله تعالى:إذا شرط الشريكان تقسيم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما سواء كان رأس مالهما متساويا أو متفاضلا صح ، ويقسم الربح بينهما بنسبة رأس مالهما على الوجه الذي شرطاه سواء شرط عمل الاثنين أو شرط عمل واحد منهما فقط...إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن  رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم، فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا ، فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط .(مجلة الأحكام العدلية:٢٦٤)
يقسم الضرر والخسار في كل حال بنسبة مقدار حصة الشريكين في المال المشترى سواء باشرا عقد الشراء معا أو باشره أحدهما فقط.(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:٣/٤٢٣)
شركة الأموال: وهي أن يشترك اثنان في مال، فيقولا: اشتركنا فيه على أن نبيع ونشتري معاً، أو أطلقا (أي لم يحددا البيع أو الشراء)، على أن ما رزق الله عز وجل من ربح فهو بيننا على شرط كذا، أو يقول أحدهما ذلك، ويقول الآخر: قبلت. وهي إما مفاوضة أو عنان.(الفقه الإسلامي و أدلته:٥/٣٨٨٠)
قال النبي صلى الله عليه وسلم: (المسلمون ‌عند ‌شروطهم).(صحيح البخاري:٢/٧٩٤)

احسن ظفر قریشی

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

6 شعبان المعظم  1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسن ظفر قریشی بن ظفر محمود قریشی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے