جناب مفتی صاحب
عرض یہ ہے کہ شادی سے پہلے جو منگنی ہوتی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے جائز ہے یا ناجائز ؟
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ چونکہ اس میں خلاف شرع رسومات انجام دیجاتی ہیں اس لئے منگنی غیر اسلامی ہے ، کیا ان بات درست ہے؟ جبکہ مجھے منگنی کے ثبوت کے متعلق دوحدیثیں نیٹ سے ملی ہیں جو یہ ہیں
١۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو شادی کا پیغام دیاتھا اور ان سے منگنی کی تھی ۔﴿بخاری/ ۴۷۹۳ ﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگنی کی تھی ۔ ﴿ بخاری /۴۸۳۰ ﴾
اس مسئلہ میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منگنی کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے چند افراد ایک مجلس میں بیٹھکر یہ طے کرتے ہیں کہ فریق ثانی نے نکاح کا پیغام قبول کرلیا ہے ،طے شدہ شرائط کے مطابق آپس میں نکاح ہوگا ۔اس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اس طرح وعدہ کرنے کا عمل جائز ہے اور دیانة فریقین پروعدہ کی پابندی لازم ہے ، بلاعذر شرعی اس منگنی کو توڑنا جائز نہیں۔ بس منگنی کی حقیقت اتنی ہی ہے ،جو حدیثیں آپ نے نقل کی ہیں ان سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ شریعت کے مطابق منگنی کا عمل جائز ہے ، باقی اس کے ساتھ قیودات اور خلاف شرع رسومات وغیرہ جو آج کے معاشرہ میں منگنی کاحصہ بنادی گئی ہیں ان کاثبوت شریعت میں نہیں ہے ۔ اور ان احادث میں بھی ان رسومات کے جواز کا ذکر نہیں ہے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ بعض علاقوں میں اس طرح وعدے کے ساتھ منگنی کے وقت باقاعدہ نکاح بھی ہوجاتا ہے ،اگر اس نکاح میں نکاح کی شرائط جیسے گواہوں وغیرہ کا اہتمام کیا گیا ہو تو یہ نکاح شرعا بھی معتبر ہے ،لہذا ایسے میں منگنی کی حیثیت صرف وعدے کی نہیں بلکہ باقاعدہ نکاح کی ہوتی ہے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 11)
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اھ
قال فی اللمعات شرح مشکوة من باب الوعد قیل الخلف فی الوعد بغیر مانع حرام وھو المراد ھھنا وکان الوفاء بالوعد مامورا بہ فی الشرائع السابقة ایضا ۔