جناب مفتی صاحب
عرض یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ناراضگی تھی ، میاں نے فون کیا اور بیوی کی بڑی بہن سے بات کرنے لگا ،گفتگو کے دوران بات بڑھ گئی اور فون بیوی کی چھوٹی بہن نے لے لیا ، جبکہ شوہر نے یہ سمجھا کہ فون اس کی بیوی نے لے لیا ہے ، جبکہ فون اس کی چھوٹی سالی کے پاس تھا ، شوہر نے سالی کو بیوی سمجھ کر غصے میں تین بار طلاق دی ۔ میں تمہیں طلا ق دیتا ہوں ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ لیکن چھوٹی بہن نے پہلے لفظ کے بعد ہی فون بند کردیا تھا ،۔ اور بعد میں میسج کرکے کہا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں ۔ شکر ہے موبائل میں نے لے لیا تھا آپ کی بیوی نے نہیں ۔
اب سوال یہ ہے سائل کی بیوی پر طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اگر ہوئی ہے تو اس کا حل بتائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگرچہ فون سالی کے ہا تھ میں تھا ، لیکن شوہر نے یہ الفاظ بیوی کے حق میں استعمال کیا ہے ، لہذا ان الفاظ سے تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ، اور بیوی شوہر پر طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے ،اب دونوں کے لئے میاں بیوی کی حیثیت سےزندگی گذار نا جائز نہیں ۔ اور حلالہ شرعیہ کے بغیر آپس میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ہے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 293)
(قوله قال لامرأته هذه الكلبة طالق طلقت إلخ) لما قالوا: من أنه لا تعتبر الصفة والتسمية مع الإشارة كما لو كان له امرأة بصيرة فقال امرأته هذه العمياء طالق وأشار إلى البصيرة تطلق، ولو رأى شخصا ظن أنه امرأته عمرة فقال يا عمرة أنت طالق ولم يشر إلى شخصها فإذا الشخص غير امرأته تطلق لأن المعتبر عند عدم الإشارة الاسم وقد وجد كما في الخانية وقدمنا بسط الكلام على مسألة الإشارة والتسمية في باب الإمامة
الفتاوى الهندية (8/ 157)
وعلى هذا إذا سمى بغير اسمها ولا نية له في طلاق امرأته فإن نوى طلاق امرأته في هذه الوجوه طلقت امرأته كذا في الذخيرة
الفتاوى الهندية (8/ 154
ولو قال لامرأته ينظر إليها ويشير إليها يا زينب أنت طالق فإذا هي امرأة له أخرى اسمها عمرة يقع الطلاق على عمرة تعتبر الإشارة وتبطل التسمية كذا في فتاوى قاضي خان.