021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آن لائن گیمز کے ٹورنامنٹ کروا کر نفع کمانا
66635سود اور جوے کے مسائلجوا اور غرر کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم آن لائن کرکٹ گیم کا ٹورنامنٹ کرواتے ہیں اور اس کا طریقہ درج ذیل ہوتا ہے : 1) ہر کھلاڑی سے 100/- روپے شرکت کی فیس لی جاتی ہے۔ 2) زیادہ سے زیادہ 70 سے 80 لوگ ایک ٹورنامنٹ میں شرکت کرتے ہیں۔ 3) اس ٹورنامنٹ میں جیتنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ بالکل فائنل تک پہنچا جائے ، یعنی پہلی یا دوسری یا تیسری پوزیشن لینا ضروری نہیں۔ 4) ہر کھلاڑی کو ایک پوائنٹ اسکور کرنے پر 60/- روپے دیے جاتے ہیں۔ اگر اسکور زیرو ہوا تو کچھ نہیں ملے گا چاہے وہ سیمی فائنل تک یا فائنل تک پہنچ جائے۔ ٹورنامنٹ کروانے کے لئے ہماری اپنی لاگت بھی شامل ہوتی ہے ، جس میں مارکیٹنگ اور دوسرے اخراجات لگتے ہیں تو اس میں کچھ حصہ ہم بطور منافع اپنے لیے بھی رکھتے ہیں۔ اسکور کرنا مکمل طور پر صلاحیت اور مہارت پر موقوف ہوتا ہے اس میں چانس یا جوے کی شکل نہیں ہوتی۔ جو کھلاڑی جتنا زیاہ ماہرہوگا اس کو اپنی محنت سے اتنے ہی پوائنٹس ملیں گے۔ فی الحال ہم آن لائن کرکٹ اور آن لائن فٹ بال جیسے FIFA پر یہ کھیل کھلائیں گے۔مستقبل میں ہم دیگر گیمز میں بھی ٹورنامنٹ کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسے pubji ،fortnightو غیرہ۔ ان گیمز میں اسکور اسے ملے گا جس نے ایک راؤنڈ میں زیادہ بندے مارے ہوں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آن لائن گیمنگ میں ٹورنامنٹ کھیلنے کی فیس ادا کرنا اور پھر اسکور کرنے والے کو کچھ رقم ملنا، اور نہ کرنے والے کو نہ ملنا شریعت کی رو سے جوے کی ایک شکل ہے ۔ ایسا کھیل کھلانا یا کھیلنا دونوں قرآن مجید کی رو سے حرام ہے۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:’’ لوگ آپ سے شراب اور جوے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیےان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ 219) دوسری جگہ ارشاد ہے:’’ اے ایمان والوں ! یقینا شراب ، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیریہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ ‘‘ (سورہ مائدہ: 90) حدیث شریف میں کھیلوں میں ہونے والے مقابلوں کو بھی حرام کہا گیا ہے، جبکہ ہر کھلاڑی کچھ رقم لگائے اور ہار جیت دونوں کا امکان ہو۔ چناچہ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:’’ جس نے اپنا گھوڑا دو گھوڑوں کے درمیان ڈالا، جبکہ اسے جیتنے کی امید بھی ہے تو یہ جوا ہے۔‘‘ اسی طرح فقہاء کرام نے بھی ایسی صورتوں کو جوے میں ہی داخل فرمایا ہے۔ یہاں مسئلے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کھیل محض تکے یا تخمینے والا ہو، جیسے چھکا پھینک کر کھیلنا، یا پھر اس میں کوئی ہنر اور مہارت بھی شامل ہو۔ جو ا خانوں (casinos)میں جس قسم کے کھیل کھیلے جاتے ہیں ان میں بہتوں میں مہارت کا بھی دخل ہوتا ہے۔ اس بناء پر کھیل کا کوئی بھی مقابلہ چاہے وہ جسمانی physical ہو ، جیسے کرکٹ ٹورنامنٹس یا آن لائن ہو ، اگر مذکورہ طریقے سے پیسے لگا کر کھیلا جائے گا تو حرام ہوگا۔ دوسری بات اس سوال میں کمپیوٹر یا ڈیجیٹل گیمز اور خصوصا آج کل کی آن لائن گیمز کھلانے کی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں پسندیدہ یہ ہے کہ مسلمان ایسے کھیل کھیلیں جن کا کوئی فائدہ ہو۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’مومن کے تمام کھیل بے کار ہیں سوائے تین کھیلوں کے:گھوڑ سواری، تیر اندازی اور بیوی کے ساتھ دل لگی کرنا۔‘‘ پہلے دو کھیلوں میں جسمانی قو ت اور جہاد کی تیاری ہے، جبکہ تیسرے میں اپنی ایک فطری خواہش کو اللہ کے حکم کے مطابق حلال انداز سے پورا کرنا ہے۔ لہذا کھیلوں کے مقابلے منعقد کروانے والوں کو مسلمانوں کے لیے ایسے کھیلوں کا انتخاب کرنا چاہیے، جس میں جسمانی ورزش یا علم و ذہانت کا فائدہ ہو۔ پھر علماء امت نے کسی بھی قسم کے کھیل کھیلنے کی درج ذیل شرائط کےساتھ گنجائش دی ہے: 1) وہ کھیل جائز ہو، چنانچہ جوا، حرام کمائی ، خواتین کی فحش تصاویر اور موسیقی پر مبنی کھیل جائز نہیں ہوگا۔ 2) حقوق العباد مثلا والدین ، بیوی، بچوں، بہن بھائیوں اور دیگر قرینی رشتہ داروں کے حقوق کی ادئیگی میں کوتاہی نہ ہورہی ہو۔ 3) Addiction یعنی غیر معمولی انہماک نہ ہو۔ اب اگر سوال میں مذکور گیمز اور اس طرح کی بہت سی دیگر آن لائن گیمز کا تجزیہ کیا جائے تو ڈاکٹرز اور دیگر ماہرین کے مطابق ان میں درج ذیل مفاسد ہیں: 1. مار دھاڑ(violence): چنانچہ جن گیمز میں لوگ قتل کرنے ہوتے ہیں ، ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس سے بچوں کے ذھن سخت آلودہ ہوتے ہیں، ان میں سختی، بے رحمی اور دیگر دماغی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ کئی واقعات امریکا اور دیگر ممالک میں ایسے ہوئے جہاں کسی بچے نے ایسی گیمز کھیلنے کی وجہ سے بندوق لے کر لوگوں کو قتل کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ گیمز میں وائلنس پڑھتا جارہا ہے، اور بہیمانہ انداز سے قتل کے طریقے بھی شامل کیے جارہے ہیں۔سوال میں مذکور گیم، pubji اور fortnight کا مقصد بھی یہی ہے، بلکہ اس میں وہ گیمر جیتتا ہے جو دیگر سب کرداروں کو مار دیتا ہے۔ 2. فحش مواد دیکھنا: متعدد تحقیقات کے مطابق بہت سی گیمز میں فحش مواد، یہاں تک کہ بدکاری کرنے کو ڈالا گیا ہے۔ ان میں بہت سی وہ گیمز بھی ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ کھیلی جاتی ہیں ۔اسی طرح خواتین کے کردار کو بڑھایا جارہا ہے اور انہیں فحش انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ اگر چہ سوال میں مذکور گیمز میں یہ علت نہیں ، لیکن اکثر گیمز میں اس قسم کے مواد میں اب اضافہ ہورہا ہے۔ رفتہ رفتہ گیمنگ انڈسٹری اور فحش مواد کی انڈسٹری قریب آرہے ہیں۔ 3. انہماکAddiction: اوپر کسی کھیل کے جائز ہونے کےلیے یہ شرط لکھی گئی تھی یہ اس میں اتنا انہماک نہ ہو ، جس سے انسان اپنے دینی و دنیوی حقوق و فرائض میں کوتاہی کرنے لگے۔ لیکن گزشتہ دہائی میں جو گیمز بن رہی ہیں، خصوصا MMORPG(massively multiplayer online role playing games) انہیں اس انداز سے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ کھیلنا والا جلد اسے چھوڑ نہ سکے۔ یہ اس وقت ماہرین نفسیات کے یہاں سب سے سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO نے گیمنگ ایڈکشن کو ایک دماغی مسئلہ تسلیم کیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق آن لائن گیم کھیلنے والے 17% اور بعض جگہ34% تک لوگ اس لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ماہرین اس کی بہت سی علامات بھی بتا رہے ہیں، مثلا: وہ اپنی تعلیم، صحت ، سوشل تعلقات ، مشاغل اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کرنے لگ جاتے ہیں۔ نیند متاثر ہوجاتی ہے اور عملی زندگی سے کٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تحقیقات اور سروےمیں دماغی مسائل کے علاوہ بہت سے جسمانی امراض بھی ذکر کیے گئے، مثلا: کلائی، کمر ، گردن کا درد، انگلیوں کا سوجنا شروع ہونا، نیند نہ آنا، وغیرہ ۔ ان گیمز کے کھیلنے والے بچے ایک ورچول(خیالی) دنیا میں بسنے لگ جاتے ہیں، اور ہر وقت ان کا دماغ اپنی گیم میں ہی گھوم رہا ہوتا ہے۔ ماہرین نے گیمرز کے دماغ کے اسکینز لے کر یہ بھی دریافت کیا ہے کہ گیمنگ اڈکشن جوے کی اڈکشن کے مثل ہے۔ نیچے دیے گئے بعض معتبر ویب سائٹس کے حوالجات میں اس کی مزید تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ 4. غلط دوستیاں: ماہرین کے مطابق بہت سے لوگ آن لائن گیمرز کے روپ میں بچوں کے استحصال کے لیے بھی موجود ہوتے ہیں، یہ کسی کی پرائیویسی کو ختم کرکے بہت سے غلط فوائد حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات چیٹنگ کے ذریعہ کھیلنے والے بچوں کو منشیا ت ، فحش مواد یا دیگر مقاصد کےلیے استعمال کرلیتے ہیں۔ ان تمام تفصیلات کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک مسلمان کو ایسے کھیلوں سے دور رہنا چاہیے جس میں اتنے مفاسد ہوں۔ رسول اللہﷺ کا رشاد مبارک ہے:’’ ایک انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول کاموں کو چھوڑ دے۔‘‘ یہ تو کھیلنے سے متعلق بات تھی، ایسے کھیل کھلانے میں شریک بننا ہرگز جائز نہیں۔ لہذا آپ کےلیے مذکورہ طریقے پر آن لائن گیمنگ کا کاروبار کرنا شرعا واخلاقاجائز نہیں، اور اگر اس کے ذریعہ نفع کمایا گیا تو وہ حرام ہوگا۔
حوالہ جات
• يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90) • المعجم الأوسط (4/ 62) «مَنْ أدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ، وَهُوَ يَأْمَنُ أَنْ يُسْبَقُ، فَهُوَ قِمَارٌ» سنن أبي داود ت الأرنؤوط (4/ 224)، کذا فی مسند أحمد و ابن ماجه 2579 - عن أبي هريرة، عن النبي -صلَّى الله عليه وسلم-، قال: "من أدخَل فرساً بين فرسَين، يعني وهو لا يؤمَن أن يُسبَقَ فليس بقِمارٍ، ومن أدخَل فرساً بين فرسَين وقد أُمِن أن يُسبَق فهو قِمارٌ" • فتح القدير للكمال ابن الهمام (10/ 64) قال لهو(ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل) ؛ لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال - عليه الصلاة والسلام - «لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله» ۔۔۔۔ وقال بعض الناس: يباح اللعب بالشطرنج لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي - رحمه الله -. لنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير» ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراما لقوله - عليه الصلاة والسلام - «ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر» ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه. وكره أبو يوسف ومحمد التسليم عليهم تحذيرا لهم، ولم ير أبو حنيفة - رحمه الله - به بأسا ليشغلهم عما هم فيه. • الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 403) (وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لأنه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبهز (قوله: لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص...... أقول: قدمنا عن القهستاني جواز اللعب بالصولجان وهو الكرة للفروسية وفي جواز المسابقة بالطير عندنا نظر وكذا في جواز معرفة ما في اليد واللعب بالخاتم فإنه لهو مجرد وأما المسابقة بالبقر والسفن والسباحة فظاهر كلامهم الجواز ورمي البندق والحجر كالرمي بالسهم، وأما إشالة الحجر باليد وما بعده، فالظاهر أنه إن قصد به التمرن والتقوي على الشجاعة لا بأس به (قوله والبندق) أي المتخذ من الطين ط ومثله المتخذ من الرصاص (قوله وإشالته باليد) ليعلم الأقوى منهما ط (قوله والشباك) أي المشابكة بالأصابع مع فتل كل يد صاحبه ليعلم الأقوى كذا ظهر لي (قوله ومعرفة ما بيده من زوج أو فرد واللعب بالخاتم) سمعت من بعض فقهاء الشافعية أن جواز ذلك عندهم إذا كان مبنيا على قواعد حسابية مما ذكره علماء الحساب في طريق استخراج ذلك بخصوصه لا بمجرد الحزر والتخمين. أقول: والظاهر جواز ذلك حينئذ عندنا أيضا إن قصد به التمرن على معرفة الحساب، وأما الشطرنج فإنه وإن أفاد علم الفروسية لكن حرمته عندنا بالحديث، لكثرة غوائله بإكباب صاحبه عليه، فلا بقي نفعه بضرره كما نصوا عليه بخلاف ما ذكرنا تأمل. • الفتاوى الهندية (6/ 445) (والمسابقة) بالفرس والإبل والأرجل والرمي جائزة، وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين، ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز، وإذا شرط من جانب واحد بأن يقول: إن سبقتني فلك علي كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك جاز استحسانا ولا يجوز فيما عدا الأربعة المذكورة في الكتاب كالبغل، • سنن الترمذي ت بشار (4/ 136) 2317 - عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه." https://en.wikipedia.org/wiki/Video_game_addiction https://www.psychguides.com/behavioral-disorders/video-game-addiciton/ https://levelskip.com/misc/Virtual-Addiction-Dangers-of-Online-Gaming https://www.webmd.com/parenting/news/20180420/when-does-online-gaming-become-an-addiction#1 https://internetsafety101.org/gamingdangers • https://onlinelibrary.wiley.com/doi/10.1002/9781118767771.wbiedcs044 : Negative Consequences of Excessive Online Gaming Irrespective of whether problematic video gameplay can be classed as an addiction, there is now a relatively large number of studies all indicating that excessive online gaming can lead to a wide variety of negative psychosocial consequences for a minority of affected individuals. In extreme cases, these can include sacrificing work, education, hobbies, socializing, time with partner/family, and sleep; increased stress; an absence of real‐life relationships; lower psychosocial well‐being and loneliness; poorer social skills; decreased academic achievement; increased inattention; aggressive/oppositional behavior and hostility; maladaptive coping; decreases in verbal memory performance; maladaptive cognitions; and suicidal ideation (Griffiths et al., 2012). In addition to the reported negative psychosocial consequences, Griffiths et al. also reported many health and medical consequences that may result from excessive gaming (both online and offline). These included epileptic seizures, auditory hallucinations, obesity, wrist pain, neck pain, blisters, calluses, sore tendons, and numbness of fingers, sleep abnormalities, and repetitive strain injuries. Taken together, this relatively long list of potential psychosocial and negative medical consequences indicates that excessive online gaming is an issue irrespective of whether it is an addiction. It also suggests that more extensive recognition by the medical community is needed of the wide range of potential negative and life limiting consequences of excessive gaming. Factors Associated with Problematic Gaming and Gaming Addiction A number of studies have examined the role of personality factors, comorbidity factors, and biological factors, and their association with online gaming addiction. In relation to personality traits, gaming addiction has been shown to be associated with neuroticism, aggression and hostility, avoidant and schizoid interpersonal tendencies, loneliness and introversion, social inhibition, boredom inclination, sensation seeking, diminished agreeableness, diminished self‐control and narcissistic personality traits, low self‐esteem, state and trait anxiety, and low emotional intelligence (Griffiths et al., 2012).
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد افنان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب