021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ خاندانی کاروبار میں حصص کی تقسیم
70900شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

سوال: ہم پانچ بھائی (فضل رحیم، فضل اللہ، عبد اللہ، کفایت اللہ، فرحت اللہ) اور چار بہنیں ہیں۔ غالباً سال  1996 سے 2000 کے درمیان بڑے بھائیوں نے والد صاحب کے گھر کے اندر ایک کمرے میں واشنگ پاؤڈر بنانے کا کام شروع کیا۔ جس میں دوسرے نمبر والے بھائی فضل اللہ کا کام خام کی خریداری اور پھر تیار واشنگ پاؤڈر کو مارکیٹ میں فروخت کرنا تھا۔ جبکہ تیاری کے مراحل (واشنگ پاؤڈر بنا نا اور پیکنگ وغیرہ) میں والدہ سمیت سب بہن بھائی (سوائے بڑی بہن جس کی شادی ہو چکی تھی) کام کرتے تھے۔ ہم دو چھوٹے بھائی (کفایت اللہ، فرحت) بھی سکول سے واپس آکر پیکنگ کرتے تھے۔ کچھ سال بعد کاروبار میں بچت ہوئی، تو فضل اللہ کے گھر کے پیچھے متصل دس مرلے کا پلاٹ لیا اور اس میں ایک ہال بنوا کر کارخانہ وہاں شفٹ کیا۔ والد صاحب والے گھر کا کمرہ بدستور کارخانے کا حصہ رہا۔ پھر کچھ مزدوروں کو بھی کام پر لگایا، تو گھر کی خواتین نے کام کرنا چھوڑ دیا، لیکن ہم چھوٹے بھائی کام کرتے رہے۔ تقریباً 2003/2004 میں سب سے بڑے بھائی فضل رحیم کاروبار کی غرض سے ملائیشیا چلے گئے، اور وہاں سے وقتاً فوقتاً پیسے گھر بھیجتے رہے۔ جہاں انہوں نے 7-8 سال کا عرصہ گزارا۔ 2008 میں بڑے بھائیوں نے والد صاحب کا مکان اور دس مرلے کا کارخانہ بیچ کر مین روڈ کے قریب تقریبا 3 کنال کا پلاٹ لیااور کاروبار کے پیسوں سے ایک سائیڈ پر کارخانہ بنایا اور دوسری سائیڈ پر آہستہ آہستہ گھر تعمیر کیا۔ 2009 میں دونوں بڑے بھائیوں (فضل رحیم اور فضل اللہ) کی شادیاں ہوئی تو فضل رحیم 2010 میں واپس پاکستان شفٹ ہوا، وہ اپنے ساتھ کچھ کیش لاکر وہ بھی کارخانے میں لگادیا۔ 2009 میں بڑے بھائیوں نے مجھے پڑھنے کے لیے اسلام آباد بھیج دیا اور سب سے چھوٹے بھائی سے بھی کارخانے میں کام کرانا بند کر دیا کہ اس کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔ تقریباً 2012/2013 میں بڑے بھائیوں نے انڈسٹریل زون نوشہرہ میں گرائنڈنگ مل خریدا، مل کے خالی حصے میں واشنگ پاؤڈر کا کارخانہ لگانا شروع کیا۔ 2014 میں میری ڈگری ختم ہوئی تو میں گھر جانے کی بجائے اسلام آباد میں ہی رک گیا۔ اسلام آباد میں میں نے وکالت شروع کی لیکن میرا زیادہ ٹائم اپنی کمپنی کے کیسز میں ہی گزرتا رہا۔ کمپنی کے کیسوں کی پیروی کرتے ہوئے مجھے کوئٹہ، کراچی اور کبھی پشاور وغیرہ جانا پڑتا تھا،جس کی وجہ سے میں اپنی وکالت کو بھی ٹائم نہ دے سکا۔ میری وکالت شروع ہوتے ہی اس قدر متاثر ہوئی کہ مجھے وکالت چھوڑ کر کمپنی کے کیسز کے ساتھ ساتھ بھائیوں کے ساتھ باقی معاملات میں ان کا ساتھ دینا پڑا۔ میں اسلام آباد میں رہ کر مختلف جگہوں پر بھائیوں کے مشورے سے سستے پلاٹ ڈھونڈ کر کمپنی کے پیسوں سے خریدنے شروع کیے او کچھ سالوں بعد منافع کے ساتھ بیچ کر دوبارہ کوئی اور پلاٹ خرید لیتا تھا۔ 2015 سے 2020 تک مختلف اوقات میں دو تین بار اسلام آباد سے نوشہرہ شفٹ ہوا کہ بھائیوں کے ساتھ کمپنی کا کام سنبھا لوں، لیکن ہر بار بڑے بھائی فضل اللہ سے اختلافات کی وجہ سے میں کام چھوڑ کر واپس اسلام آباد آجاتا تھا۔ اب 2020 میں بڑے بھائی مجھے کہتے ہیں کہ اس جائیداد اور کاروبار میں آپ کا شرعا کوئی حصہ نہیں ہے، کیونکہ یہ سب ہماری محنت سے ہی بنا ہے، کیونکہ ہمارے والد صاحب کے پاس تو کوئی کارخانہ نہیں تھا۔ جبکہ اس اختلاف سے پہلے بڑے بھائی ہمیشہ وقتاً فوقتاً یہی کہتے تھے کہ یہ جو کچھ ہے ہم سب  بھائیوں کا مشترکہ ہے، اور اسی لیے سب بھائیوں نے مل جل کر کام کیا ہے۔ میں نے بھی اپنا کیرئیر بنانے کی بجائے کمپنی کے کیسز اور مشترکہ کام کو ہی فوقیت دی ہے۔

آپ جناب سے شرعی فتوی درکار ہے کہ کاروبار، کارخانے اور جائیداد میں سب کا حصہ ہے یا صرف بڑے بھائیوں کا ہے، کہ انہوں نے محنت زیادہ کی ہے، جبکہ سب بھائیوں نے اپنی اپنی حیثیت میں محنت کی ہے۔ اور بڑے بھائی بار بار کہتے رہے کہ یہ سب بھائیوں  کا مشترکہ ہے۔ اور اکثر کہتے تھے کہ ہم نے آپ بھائیوں کی خاطر اس کاروبار میں اپنی جوانی لگا دی ہے، یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ جبکہ آج وہ میرا حصہ دینے سے انکاری ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ شریعت میں آپ کا حصہ نہیں بنتا۔

برائے مہربانی شریعت مطہرہ کی روشنی میں فتویٰ دے کر مشکور وممنون فرمائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بشرط صدق سائل ، صورت مسئولہ میں تمام بھائیوں کی مشترکہ محنت اور مشترکہ کمائی  ایک کاروبار میں لگی رہی،  سرمایے کا تناسب اور آمدنیوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین نہیں، پھر اسی آمدنی سے دیگر جائیدادیں خریدی گئیں، بوقت شرکت آپس میں کوئی معاہدہ یا تحریر وغیرہ بھی نہیں۔

ایسی صورت میں سارے بھائی اس کاروبار کے تمام اثاثہ جات اور آمدنی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ دوران شرکت کسی شریک کا زیادہ یا کم کام کرنے سے حصص پر فرق نہیں پڑتا۔ جس بھائی نے کاروبار میں عملی طور پر حصہ نہیں لیا اور نہ ہی سرمایہ شامل کیا، لیکن گھر کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے، انہیں بھی برابر حصہ ملے گا۔ مشترک کاروبار میں صرف محنت کی زیادتی کی وجہ سے کوئی شریک مکمل کاروبار یا زیادہ حصے کا حق دار نہیں ٹھہرتا۔ البتہ اگر شروع میں باقاعدہ معاہدے کے تحت کسی عامل شریک کا حصہ زیادہ مقرر کیا جائے تو پھر اس کو زیادہ حصہ دینا جائز ہے۔

بہتر یہ ہے کہ آپس کی رضامندی سے دو بڑے بھائیوں کی دلجوئی کے لیے ان کو کچھ اضافی حصہ بھی دیا جائے، کیونکہ ان کی محنت اور آمدنی دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 327)
قلت: والمراد أن شركة الملك لا تبطل: أي لا يبطل الاشتراك فيها، بل يبقى المال مشتركا بين الحي وورثة الميت كما كان وإلا فلا يخفى أن شركة الميت مع الحي بطلت بموته تأمل.
 
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 180)
(قوله: شركة الملك أن يملك اثنان عينا إرثا أو شراء) بيان للنوع الأول منها وقوله إرثا أو شراء مثال لا قيد فلا يرد أن ظاهره القصر عليهما مع أنه لا يقصر عليهما، بل تكون فيما إذا ملكاها هبة أو صدقة أو استيلاء بأن استوليا على مال حربي أو اختلاطا كما إذا اختلط مالهما من غير صنع من أحدهما أو اختلط بخلطهما خلطا يمنع التمييز أو يتعسر كالحنطة مع الشعير.
 
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 179)
وحكمها في شركة الملك صيرورة المجتمع من النصيبين مشتركا بينهما وفي شركة العقد صيرورة المعقود عليه أو ما يستفاد به مشتركا بينهما
 
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 94)
(سئل) في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟
(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا
 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)
مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ

ناصر خان مندوخیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب