021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
واقف کا متولی کو معزول کرنے کا حکم
71223وقف کے مسائلمدارس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک وکیل صاحب نے ایک مولوی صاحب کو 9 کنال زمین مدرسہ کے لیے دے دی اور قبضہ بھی دے دیا اور کاغذات بھی بنام اس مولوی صاحب کے بیع قطعی بلا زر بدل  کے عنوان سے انتقال تصدیق کردی ۔اور اس مولوی صاحب نے اس زمین پر باقاعدہ ٹیکس بھی ادا کردیا۔اور مدرسہ کی زمین پر کچھ سالوں سے تعمیر بھی جاری ہے ۔اب وکیل صاحب اور مولوی صاحب کے درمیان بعض امور پر اختلاف پیدا ہوا ہے  جس کی بناء پر یہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ وکیل صاحب کا موقف یہ ہے کہ زمین وقف شدہ ہے اور میں واقف ہوں اور میں اس مولوی صاحب کو مہتمم کے عہدہ سے معزول کرنا چاہتا ہوں تاکہ دوسرا مقرر کروں۔اور مولوی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ زمین مجھے ہبہ ہوئی ہے اور میں اس کا مالک ہوں ،اس وکیل صاحب کا اس زمین سے کوئی تعلق نہیں اور مدرسے کا انتظام میری ذمہ داری ہے ،کسی کو میرے عزل کا اختیار نہیں ہے ۔مزید یہ کہ کاغذات بھی لف ہیں۔

                                    اب پوچھنا یہ ہے کہ اس زمین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کا ذمہ دار شرعی طور پر کون ہوسکتا ہے؟ بالفرض اگر شرعی حاکمان فیصلہ کرتے ہیں ،زمین اور تعمیر کی قیمت لگاکر مولوی صاحب کو یہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کراتے ہیں تو یہ فیصلہ ازروئے شریعت  اور ازروئے صلح جائز ہوگا یا نہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وکیل صاحب نے زمین چونکہ مدرسہ کے لیے دی ہے،آپ کو ذاتی طور پر نہیں دی ہے،اور عرف میں اس طور پر لوگ وقف کرتے بھی ہیں، لہٰذا دیانۃ یہ وقف ہے اور اس پر وقف کے احکام جاری ہوں گے۔      اور وقف کے احکام کے مطابق واقف کسی زمین کو مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کرے (یایہ کہ مسجد و مدرسہ کے لیے جگہ دے اور پھر اس پر باقاعدہ طور  پر مسجد یا مدرسہ تعمیر ہوجائے تو اس سے بھی وقف ہوجاتا ہے )اور کسی شخص کو اس پر باقاعدہ متولی مقرر کرکے اس کے تصرف میں بھی دے دے تب بھی واقف کو تاحیات یہ اختیار رہتا ہے کہ وہ متولی کو معزول کردے،اور کسی دوسرے شخص کو نگران بنادے۔لیکن اس سے وقف باطل نہیں ہوتا ،یعنی اگر مسجد یا مدرسہ کے لیے جگہ وقف کی ہے تو اس پر مسجد یا مدرسہ ہی بنانا لازم ہوگا۔ نیز متولی(مولوی صاحب ) نے مسجد یا مدرسہ پر چندہ وغیرہ جمع کرکے جو بھی رقم تعمیر پر خرچ کی تو اس کے لیے یہ باعث اجر وثواب ہے لیکن اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ البتہ ٹیکس وغیرہ اگر اپنی جیب سے ادا کیے ہیں تو اس کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

            البتہ انتقال میں چونکہ بلازر لکھا ہے جس کا مطلب ہبہ ہے، جبکہ اس سے پہلے وقف ہوچکا ہے لہٰذا وقف کے بعد ہبہ ممکن نہیں۔بہرحال سرکاری محکمے میں کاغذات چونکہ ایک ثبوت ہے،اس بناء پر زمین مولوی صاحب کی ثابت ہوتی ہے،لیکن دیانۃ مولوی صاحب متولی ہی ہیں ،ملکیت کا دعوی کرنا جائز نہیں۔معاملہ اگر صلح پر ہوتا ہے اور کچھ رقم دے دلا کر مولوی صاحب کو  کسی دوسری جگہ پر متقل کرتے ہیں تو یہ درست ہوگا۔

                       

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:مطلب ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه ثم للقاضي،قوله:( ولاية نصب القيم إلى الواقف) قال في البحر :قدمنا أن الولاية للواقف ثابتة مدة حياته وإن لم يشترطها وأن له عزل المتولي، وأن من ولاه لا يكون له النظر بعد موته أي موت الواقف إلا بالشرط على قول أبي يوسف. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين:4/ 421)
                                                البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 254)
 وقد ذكر في الأشباه أوائل كتاب الوقف أن الواقف إذا شرط عزل الناظر حال الوقف صح اتفاقا وإلا لا عند محمد ويصح عند أبي يوسف ثم قال ولم أر حكم عزله للمدرس والإمام الذي ولاهما ولا يمكن الإلحاق بالناظر لتعليلهم لصحة عزله عند الثاني بكونه وكيلا عنه وليس صاحب الوظيفة وكيلا عن الواقف، إلخ فهذا يفيد الفرق بين الناظر وغيره من أصحاب الوظائف فليتأمل.
                                                قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وشرعا (حبس العين على) حكم (ملك الواقف والتصدق بالمنفعة) ولو في الجملة،والأصح أنه (عنده) جائز غير لازم كالعارية (وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة. (الدر المختار:4/337)
                                                قال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی رحمہ اللہ:  ثم عند محمد لصحة الوقف أربعة شرائط: التسليم إلى المتولي، وأن يكون مفرزا، وألا يشترط لنفسه شيئا من منافع الوقف، وأن يكون مؤبدا بأن يجعل آخره للفقراء. لما روي عن عمر وابن عباس ومعاذ رضي الله عنهم ،أنهم قالوا: لا تجوز الصدقة إلا محوزة مقبوضة، ولأن التمليك حقيقة من الله لا يتصور لأنه مالك الأشياء، وإنما يثبت ذلك ضمنا للتسليم إلى العبد كالزكاة، ولأنه متى كان له شيء من منافع الوقف لم يخلص لله  تعالى .
وقال أبو يوسف: شيء من ذلك ليس بشرط لأنه إسقاط، وصار كالإعتاق، وأخذ مشايخ خراسان بقول أبي يوسف ترغيبا .(الاختيار لتعليل المختار :3/ 41)
                                              وقال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ: وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعودمنفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث.واللفظ ينتظمهما والترجيح بالدليل. لهما ،قول النبي  صلى الله عليه وسلم ، لعمر  رضي الله عنه ، حين أراد أن يتصدق بأرض له تدعى ثمغ:" تصدق بأصلها لا يباع ولايورث ولا يوهب"ولأن الحاجة ماسة إلى أن يلزم الوقف منه ليصل ثوابه إليه على الدوام، وقد أمكن دفع حاجته بإسقاط الملك وجعله لله تعالى. (فتح القدير للكمال ابن الهمام :6/ 203)
                                                و فی الفتاوی  الھندیۃ:وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم، ولا يباع ،ولا يوهب، ولا يورث، كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية.( الفتاوى الهندية: 2/ 350)

محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

11جمادی الاخری  1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب