72820 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی سے کوئی چیز خریدتے ہیں تو وہ کبھی اس چیز کے ساتھ کوئی گفٹ بھی دے دیتے ہیں۔ کیا وہ گفٹ نکال کر گاہک کو بیچ سکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
معروف کمپنیاں ایسے گفٹ گاہک کے لیے ہی رکھتی ہیں اور وہ گفٹ اصل مبیع کے ساتھ ہی پیک شدہ ہوتے ہیں۔لہٰذا انہیں کمپنی کی طے کردہ سکیم اور شرائط کے تحت ہی فروخت کرنا چاہیے۔ اگر نکالے گا تو یہ کمپنی اور گاہک کے ساتھ دھوکا ہوگا، جوکہ ناجائز ہے۔ البتہ اگر دکان دار گاہک کو بتا دے کہ اس چیز کے ساتھ گفٹ تھا، جو میں نے نکال لیا ہے یا کمپنی کی طرف سے اس بات کی صراحت ہو کہ یہ گفٹ دکان دار کے لیے ہے تو دھوکا نہ ہونے کی وجہ سے اسے نکالنا جائز ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی:(فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد)….. (أو لا يقتضيه، ولا نفع فيه لأحد)… (أو لا يقتضيه، لكن)… (جرى العرف به(.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: اشترى عبدا على أن يبيعه جاز، وعلى أن يبيعه من فلان لا يجوز. …. قوله: (ولا نفع فيه لأحد): أي من أهل الاستحقاق للنفع، وإلا فالدابة تنتفع ببعض الشروط، وشمل ما فيه مضرة لأحدهما…. وللتعامل جوزنا الاستصناع مع أنه بيع المعدوم، ومن أنواعه: شراء الصوف المنسوج على أن يجعله البائع قلنسوة، أو قلنسوة بشرط أن يجعل البائع لها بطانة من عنده، وتمامه في الفتح. وفي البزازية: اشترى ثوبا أو خفا خلقا على أن يرقعه البائع، ويسلمه صح … لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب أن يكون معتبرا إذا لم يؤد إلى المنازعة.(ردالمحتار: 86/5)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: وإن قال على أن يبيعها أو يهبها، ولم يقل من فلان، فالبيع جائز. (الفتاوٰی الھندیۃ: 135/3)
وروی الإمام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی عن أبي هريرة: أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((من غشنا فليس منا.)) (صحیح مسلم: 99/1، ح:164)
محمدعبداللہ بن عبدالرشید
دارالافتاء، جامعۃ الرشید ،کراچی
یکم شعبان المعظم/ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عبد اللہ بن عبد الرشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |