021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولادمیں سےدومستحق بیٹوں کواپنی زندگی میں گھربنواکردینا
72709ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مفتی صاحب میراسوال یہ ہےکہ میں فوج سےریٹائرڈہوں میراایک آبائی گھربھبوضلع سرگودھااورایک پلاٹ فوج کی طرف سےملاہے،اس کےعلاوہ کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔

میرےتین بیٹے،تین بیٹیاں ہیں سارےشادی شدہ ہیں۔

بڑابیٹاعرصہ درازسےسعودیہ عرب میں اچھی جاپ کررہاہے،اس کاراولپنڈی میں ڈبل سٹوری گھراوردوپلاٹ بھی ہیں،میرےدونوں چھوٹےبچےاپنےبڑےبھائی کےگھرمیں رہتےہیں،ان کانہ کوئی گھر ہےنہ ہی مستقل ذریعہ معاش،میں ازراہ خداان کوسرچھپانےان کےبیوی بچوں کوعزت سےزندگی گزارنےکےلیےپلاٹ بیچ کرگھربنواکردیناچاہتاہوں۔کیاایساکرناجائزہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں جوکچھ اولادکودیاجاتاہےیہ سب عطیہ وہبہ ہوتاہے،اس کاوراثت سےتعلق نہیں ہوتا،اس کےلیےضروری ہےکہ زندگی میں جن بیٹوں کودیناچاہیں ان کومکمل حوالہ کرکےقبضہ میں بھی دیدیں،تویہ ہبہ شرعامکمل ہوجائےگا۔

زندگی میں اولادمیں ہبہ کرنےمیں بہترتویہ ہےکہ تمام اولادمیں برابری کی جائے، کیونکہ یہ عطیہ اورہبہ ہے،اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےکہ"اپنی اولادکوعطیہ دینےمیں برابری کرو"لیکن اگربعض اولادکومستحق ہونے،یاکسی اورمعقول وجہ سےاضافی گھریاپلاٹ وغیرہ دیاجائے(دیگراولادکووراثت سےمحروم کرنامقصدنہ ہو)توشرعااس کی اجازت ہے۔

صورت مسئولہ میں آپ جن بیٹوں کوگھرپلاٹ وغیرہ باقاعدہ مالک بناکر قبضہ میں دیدینگےجائےتووہ ان کاذاتی ہوجائےگا،اورمیراث  میں تقسیم نہ ہوگا۔ 

حوالہ جات
" خلاصۃ الفتاوی "  4/  40 :وفی الفتاوی: رجل لہ ابن وبنت ارادان یھب لھما شیئافالأفضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمدرحمہ اللہ تعالی وعندابی یوسف رحمہ اللہ تعالی بینھماسواء ھوالمختارلورودالآثار،ولووھب جمیع مالہ لابنہ جازفی القضاء وھوآثم ثم نص عن محمد رحمہ اللہ تعالی ھکذافی العیون ،ولوأعطی بعض ولدہ شیئادون البعض لزیادۃ رشدہ لاباٗس بہ وان کاناسواء لاینبغی أن یفضل ،ولوکان ولدہ فاسقافأراد أن یصرف مالہ الی وجوہ الخیرویحرمہ عن المیراث ھذاخیرمن ترکہ لان فیہ اعانۃ علی المعصیۃ ولوکان ولدہ فاسقالایعطی لہ أکثرمن قوتہ۔
"الفتاوى الهندية "35 /  24:
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا ، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين ، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار ، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار ، كذا في الظهيرية .
"صحیح البخاری "418 :  قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعدلوابین اولادکم فی العطیۃ ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

07/شعبان 1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب