021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر مسلم ممالک میں رہائش کے لیے مقامی قوانین کی پاسداری کامعاہدہ کرنا
73440معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

آپ سے انتہائی اہم مسئلہ کے بارے میں دریافت کرنا ہے کہ بیشتر مسلمان، مغربی ممالک میں تعلیم کی غرض سے آتے ہیں جس کی تکمیل کے بعد وہ اچھی نوکری کی غرض سے (بالخصوص وہ لوگ جو واپس اپنے پر امن مسلمان ملک جا کر اوسط درجے تنخواہ یا اس سے بہتر کی نوکری باآسانی حاصل کرسکتے ہیں مثلا کہ پاکستان کے لوگ) یہیں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،صرف یہی نہیں،بلکہ یہاں کی شہریت (اپنے مسلمان ملک کی شہریت دیکر یا دونوں رکھ کر) حاصل کرتے ہیں جس کے دوران انکو حلف اٹھانا یا حکومت سے معاہدہ پر دستخط کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقامی قوانین (بشمول ہم جنس پرستی، عورت و مرد کی ہر لحاظ سے برابری، ملکہ یا پارلیمان سے وفا داری و دیگر ) کیساتھ وفادار رہیں گے یا اسکے خلاف نہ جائینگے اور یا انکی تائید میں رہیں گے وغیرہ،لہذا کیا ایسا کرنا کسی بھی لحاظ سے جائز ہے؟ بالخصوص پاکستانیوں کے لیے کہ جن کے ملک کا آئین درج بالا تمام صورتوں کے برعکس قرآن و سنت پر مشتمل ہے؟ ایسے میں ہمیں اہل علم کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے،کیونکہ یہ صورتحال دن بدن عروج پکڑ رہی ہے اور لوگ ذاتی طور پر خود سےدینی گنجائشیں نکال کر ایسے ملک کی شہریت لینے سے بھی باز نہیں آتے جہاں کے وزراء خود بھی کھلم کھلا جنس پرستی میں مبتلا ہیں اور اسمبلیوں میں اس جیسی کئی خرافات کو گاہے بہ گاہے قانونی حیثیت دینے کے لیےعملی طور پر بھرپور سرگرم عمل ہیں ، دیگر یہ کہ مستقبل میں اگلی مسلمان نسل بھی ایسے ہی سکول اور ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے جہاں مغربی نظام زندگی کے تعلیمی نظام کا کوئی مقامی نعم البدل میسر نہیں ہوتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بلا شرعی یا معقول وجہ کے(مثلا محض زیادہ مال کمانے یا دنیوی منصب کی ترقی کے لیے) غیر مسلم ممالک میں سکونت اختیار کرنا اور وہاں کی باقاعدہ شہریت حاصل کرنادرست نہیں، بلکہ قرآن وحدیث میں اس پر نکیر آئی ہے، البتہ اپنی جان یا مال کی حفاظت کے لیے یا کسی ضروری فن اورعلم کی تحصیل یا تبلیغ دین وغیرہ کے لیے وہاں سکونت اختیار کرنا اور وہاں کی شہریت حاصل کرنا جائز ہے۔رہا یہ سؤال کہ وہاں کی حکومت اپنے ملک کی شہریت حاصل کرنے والے سے یہ اقرار یا حلف لیتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور مذہب سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں ریاست کا ساتھ دیگا تو انتظامی اور دفاعی لحاظ سے جس حد تک شریعت میں غیر مسلموں کے ساتھ معاملات اور معاشرت کی اجازت ہے ،اس حد تک تو اس نیت سے اس فارم پر دستخط کرنا جائز ہے، لیکن جہاں جن امور اور معاملات کی شرعا اجازت نہ ہو یا ان کی وجہ سے کسی مسلمان ملک یا عامۃ المسلمین کو نقصان اور ضرر پہنچتا ہو ایسے معاملات کا نہ تو حصہ بننا جائز ہے اور نہ ہی ان کے حد تک ان کی تایید وتوثیق کی نیت سے دستخط جائز ہیں۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب