021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع، اس کے بعد دوسرا نکاح اور طلاق
74564طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میری دو شادیاں ہوئی ہیں۔ پہلی شادی میں میں نے خلع لیا، میرا پہلا شوہر نہ کورٹ آیا، نہ جج کے سامنے آیا، نہ ہی اس نے منہ سے طلاق دی، مگر جج نے میرے حق میں فیصلہ دیا اور اس طرح میرا خلع ہوا۔ کیا شریعت میں اس طرح خلع قابلِ قبول ہے؟

اس خلع کے بعد میری دوسری شادی ہوئی، میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی تھی، ان کی پہلی بیوی سے پانچ بچے ہیں۔ میری شادی کو ڈھائی سال گزر چکے ہیں، میری کوئی اولاد نہیں۔ دس روز قبل میرے دوسرے شوہر نے مجھے وائس میسج پر پہلی طلاق دی، اس کے چار دن بعد وائس میسج پر ہی دوسری اور تیسری طلاق بھی دی۔  مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ تمہارے پاس صرف دو طلاق کا اختیار ہے، ایک طلاق کا اختیار میرے پاس ہے۔ نکاح نامہ میں خاص شرائط میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ طلاق کا اختیار دو مرتبہ عورت کے پاس اور ایک بار مرد کے پاس ہے۔ کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے؟

میں نے مختلف مفتی صاحبان کے بیانات میں سنا ہے کہ طلاق کا اختیار ہر صورت میں مرد کے پاس ہے، چاہے وہ خلع کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ ہر صورت میں مرد کا منہ سے طلاق دینا واجب ہے، جبکہ میرے پہلے شوہر نے کچھ نہیں کہا۔  آپ سے درخواست ہے کہ شریعت کی روشنی میں میرے ان دونوں مسئلوں کا حل بتادیں۔ پہلے شوہر سے لیے گئے عدالتی خلع کی کاپی اور دوسری شادی کے نکاح نامہ کی کاپی منسلک ہے۔  

تنقیح: سائلہ کے بھائی نے فون پر اپنی ہمشیرہ کی پہلی شادی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کورٹ میرج تھا جو ہمشیرہ نے گھر میں بتائے بغیر کورٹ میں کیا تھا اور وہیں پر نکاح ہوا تھا، جس شخص سے نکاح ہوا تھا، اس کی اور ہماری معاشرتی حیثیت تقریبا ایک تھی، اور اس وقت ہماری ہمشیرہ بالغہ تھی۔ اس کے بعد دو ڈھائی سال ہمشیرہ ہمارے گھر ہی رہی؛ کیونکہ گھر میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ جب ہمیں پتہ چلا تو ہم نے کہا چلو اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے، اب رخصتی لے لو، لیکن وہ رخصتی نہیں لے رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ اب میرے حالات ایسے نہیں ہیں، اس لیے یہ ابھی یہیں رہے گی، میں یہیں آؤں گا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے بہن کے لیے الگ مکان لیا؛ اس کا خرچہ میں برداشت کرتا تھا، لیکن پھر معلوم ہوا کہ اس شخص کی ایک شادی پہلے سے ہے جس سے اس کے تین بچے بھی ہیں، اس کے بعد معاملات اور خراب ہوئے، ہمارا وہ بہنوئی ہماری ہمشیرہ کے پاس نہیں آتا تھا، تقریبا دس ماہ تک ہمشیرہ اس گھر میں رہی، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس کے بعد ہمشیرہ نے کورٹ سے خلع لے لیا۔ بہنوئی ہمیں دھمکیاں دیتے تھے، لیکن ہماری بہن کو اس نے مارا پیٹا نہیں ہے، اور ہماری بہن نے عدالت میں اپنے دعویٰ پر گواہ پیش نہیں کیے تھے۔   

سائلہ کے بھائی نے فون پر یہ بھی بتایا کہ ہماری ہمشیرہ پاکستان میں ہے، اور اس کا یہ دوسرا شوہر دبئی میں ہے، وہیں سے اس نے وائس میسج کے ذریعے یہ طلاقیں دی ہیں اور اس کے بقول اس نے شراب کے نشے میں ایسا کیا جس پر اب وہ پریشان ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے، کوئی حل نکال لیں۔ جبکہ پہلے شوہر سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اس نے خلع کے بعد سے پوچھا ہے۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ سوالات کے جوابات سے قبل چندباتیں بطورِ تمہید جاننا ضروری ہے۔

(1)۔۔۔ اگر کوئی بالغ خاتون "کفؤ" یعنی حسب، نسب، دین داری اور مالی حیثیت میں ہم پلہ شخص سے اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو وہ نکاح اگرچہ منعقد ہوجاتا ہے، لیکن ایسا کرنا حیا کے خلاف ہونے اور متعدد مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پسندیدہ نہیں، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

(2)۔۔۔ شریعت نے طلاق اور خلع دونوں کا حق مرد کو دیا ہے، شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی سمیت کوئی بھی شخص نہ عورت کو طلاق دے سکتا ہے، نہ خلع۔ البتہ اگر شوہر خود بیوی کو حقِ طلاق تفویض کردے تو پھر وہ شرائطِ تفویض کے مطابق اپنے اوپر طلاق واقع کرسکتی ہے۔ تفویضِ طلاق کی صورت میں بھی طلاق در حقیقت شوہر ہی دیتا ہے؛ کیونکہ اسی نے طلاق کا حق تفویض کیا ہوتا ہے، اگر وہ یہ حق تفویض نہ کرے تو کسی کو طلاق کا اختیار نہیں ہوتا۔ البتہ اگر بیوی کے حقِ تفویض استعمال کرنے سے پہلے پہلے شوہر خود اسے طلاق دیدے تو وہ طلاق بہر حال واقع ہوگی، اور اگر وہ تین طلاق دیدے تو تین طلاق واقع ہو کر نکاح اور تفویضِ طلاق دونوں ختم ہوجائیں گے۔  

(3)۔۔۔ خلع شوہر کی رضامندی کے بغیر درست نہیں، اس لیے شوہر کی رضامندی کے بغیر ہونے والی عدالتی خلع شرعا معتبر خلع نہیں۔ البتہ اگر: (1) عدالتی فیصلے کی بنیاد ایسی ہو جس کی وجہ سے شرعا قاضی اور جج کو فسخِ نکاح کا اختیار حاصل ہو، اور (2) فیصلے کی کاروائی شریعت کے مطابق ہو تو ایسے عدالتی فیصلے کو اگرچہ خلع کہنا درست نہیں ہوگا، تاہم اس کی وجہ سے نکاح فسخ ہوجائے گا۔  

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:-

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جب سائلہ کورٹ میرج کے وقت بالغہ تھی، اور جس سے نکاح کیا تھا اس کی معاشرتی حیثیت بھی برابر کی تھی تو وہ نکاح منعقد ہوگیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے سائلہ کو خلع کی جو ڈگری دی ہے، اس میں شوہر کا بیوی کو ہمیشہ مارنے، تشدد کرنے اور بُرا برتاؤ کرنے کو خلع کی بنیاد بنایا گیا ہے، جبکہ سائلہ کے بھائی کی وضاحت کے مطابق ان کے بہنوئی نے ان کی ہمشیرہ کو مارا پیٹا نہیں ہے، اور سائلہ نے اپنے اس دعویٰ پر عدالت میں گواہ بھی پیش نہیں کیے۔  مارنے پیٹنے اور تشدد کرنے کے علاوہ فیصلے میں کسی ایسی وجہ کا ذکر نہیں جس کی وجہ سے قاضی کو شرعا فسخِ نکاح کا اختیار ہوتا ہے۔ لہٰذا جب نہ شوہر نے اسے مارا پیٹا، نہ ہی اس نے اپنی بات پر گواہ پیش کیے تھے تو خلع کی جو ڈگری "ہمیشہ مارنے پیٹنے" کی بنیاد پر جاری کی گئی ہے، اس سے ان دونوں کا نکاح فسخ نہیں ہوا تھا۔

اور جب سائلہ کا پہلے شوہر کے ساتھ نکاح ختم نہیں ہوا تھا تو اس کا دوسرے شخص سے نکاح کرنا باطل تھا، اور یہ نکاح منعقد نہیں ہوا تھا؛ اس لیے سائلہ کا اس دوسرے شخص کے ساتھ رہنا حرام تھا۔ جب یہ دوسرا نکاح ہی منعقد نہیں ہوا تھا تو اس کے نکاح نامہ میں درج دو طلاقوں کی تفویض اور وائس میسج کے ذریعے اس شخص کی دی ہوئی تین طلاقیں، سب لغو ہے۔ اب سائلہ اور اس دوسرے شخص دونوں پر لازم ہے کہ فوری طور پر  اس دوسرے شخص سے الگ ہوجائیں، اب تک جو ناجائز طریقے سے ساتھ رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر توبہ و استغفار کریں، اور آئندہ ایسے سنگین گناہ کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم کرلیں۔  

چونکہ پہلے شوہر کا نکاح بدستور باقی ہے، اس لیے سائلہ اور وہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں، تاہم جب تک دوسرے شخص کے طلاق دینے کے بعد سے سائلہ کو تین ماہواریاں نہ آئیں، اس وقت تک پہلا شوہر اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کرسکتا۔ اگر پہلا شوہر اب سائلہ کو رکھنے پر راضی نہ ہو تو اس سے طلاق یا باہم رضامندی سے خلع لے کر عدت (تین ماہواریاں) گزرنے کے بعد سائلہ دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ اس (پہلے شوہر کے طلاق یا خلع دینے اور عدت گزرنے کی) صورت میں سائلہ اِس شخص (جس سے اس نے دوسرا نکاح کیا تھا) سے بھی دوبارہ نئے مہر پر دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتی ہے۔     

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 522-516):
( وعدة المنكوحة نكاحا فاسدا )…….. ( والموطوءة بشبهة ) ومنه تزوج امرأة الغير غير عالم بحالها كما سيجيء، وللموطوءة بشبهة أن تقيم مع زوجها الأول وتخرج بإذنه في العدة لقيام النكاح بينهما، إنما حرم الوطء، حتى تلزمه نفقتها وكسوتها  بحر، يعني إذا لم تكن عالمة راضية کما سیجئ…… ( الحِيَض للموت ) أي موت الواطىء ( وغيره ) كفرقة أو متاركة؛ لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا ( ولا اعتداد بحيض طلقت فيه ) إجماعا…………الخ ( و ) مبدؤها ( في النكاح الفاسد بعد التفريق ) من القاضي بينهما……………….. ( أو ) المتاركة أي ( إظهار العزم ) من الزوج ( على ترك وطئها ) بأن يقول بلسانه تركتك بلا وطء ونحوه، ومنه الطلاق، وإنكار النكاح لو بحضرتها وإلا لا، لا مجرد العزم لو مدخولة، وإلا فيكفي تفرق الأبدان. والخلوة في النكاح الفاسد لا توجب العدة، والطلاق فيه لا ينقص عدد الطلاق؛ لأنه فسخ، جوهرة.
رد المحتار (3/ 522-516):
قوله ( فلا عدة في باطل ) فيه أن لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير؛ لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونها زنا كما في القنية وغيرها اه.  
 قلت: ويشكل عليه أن نكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد كما علمت مع أنه لم يقل أحد من المسلمين بجوازه وتقدم في باب المهر أن الدخول في النكاح الفاسد موجب للعدة وثبوت النسب ومثل له في البحر هناك بالتزوج بلا شهود وتزوج الأختين معا أو الأخت في عدة الأخت ونكاح المعتدة والخامسة في عدة الرابعة والأمة عى الحرة اه.
قوله ( والموطوءة بشبهة ) كالتي زفت إلى غير زوجها، والموجودة ليلا على فراشه إذا ادعى الاشتباه كذا في الفتح. ……قوله ( ومنه ) أي من قسم الوطء بشبهة،  قال في النهر: وأدخل في شرح السمرقندي منكوحة الغير تحت الموطوءة بشبهة حيث قال أي بشبهة الملك أو العقد بأن
زفت إليه غير امرأته فوطئها أو تزوج منكوحة الغير ولم يعلم بحالها.…… قوله ( الحيض) جمع حيضة، أي عدة المذكورات ثلاث حيض إن كن من ذوات الحيض، وإلا فالأشهر أو وضع الحمل….…  قوله ( ولم يكتف بحيضة ) كالاستبراء؛ لأن الفاسد ملحق بالصحيح احتياطا، منح. …………. قوله ( ومبدؤها في النكاح الفاسد بعد التفريق الخ ) وقال زفر: من آخر الوطآت؛ لأن الوطء هو السبب الموجب، ولنا أن السبب الموجب للعدة شبهة النكاح ورفع هذه الشبهة بالتفريق، ألا ترى أنه لو وطئها قبل التفريق لا يجب الحد وبعده يجب فلا تصير شارعة في العدة ما لم ترتفع الشبهة بالتفريق كما في الكافي وغيره اه  سائحاني.
 قلت: ولم أر من صرح بمبدأ العدة في الوطء بشبهة بلا عقد، وينبغي أن يكون من آخر الوطآت عند زوال الشبهة بأن علم أنها غير زوجته وأنها لا تحل له إذ لا عقد هنا فلم يبق سبب للعدة سوى الوطء المذكور كما يعلم مما ذكرنا والله أعلم.
تقریرات الرافعی (3/242):
(قول الشارح و منه الطلاق و إنکار النکاح لو بحضرتها الخ) راجع لما قبله فقط، ففی البحر: إنکار النکاح إن کان بحضرتها فمتارکة و إلا فلا، و علم غیر المتارك بالمتارکة شرط علی قول و صحح، و قیل لا و صحح، و رجحنا الثانی.
الدر المختار (3/ 527):
( وكذا لا عدة لو تزوج امرأة الغير ) ووطئها ( عالما بذلك ) وفي نسخ المتن ( ودخل بها ) ولا بد منه وبه يفتى ولهذا يحد مع العلم بالحرمة لأنه زنا والمزني بها لا تحرم على زوجها.  وفي شرح الوهبانية: لو زنت المرأة لا يقربها زوجها حتى تحيض لاحتمال علوقها من الزنا فلا يسقي ماؤه زرع غيره فليحفظ لغرابته ( بخلاف ما إذا لم يعلم ) حيث تحرم على الأول إلا أن تنقضي العدة ولا نفقة لعدتها على الأول إنها صارت ناشزة، خانية.  قلت: يعني لو عالمة راضية كما مر، فتدبر.
رد المحتار (3/ 527):
قوله ( ووطئها ) أي المتزوج، وهو معنى قوله "ودخل بها" لكنه لماكان موجودا في نسخ المتن المجردة وقد أسقطه المصنف من النسخة التي شرح عليها علم أن المصنف عول على عدم ذكره فذكر الشارح قوله "ووطئها" لأنه لا بد من هذا القيد، تأمل. قوله ( ولهذا ) أي لكونه لا عدة عليها، وقوله "لأنه زنا" علة للعلة فتكون علة للمعلول أيضا بواسطة ولو قدم العلة الثانية على الأولى لكان أولى.  قوله ( والمزني بها لا تحرم على زوجها ) فله وطئها بلا استبراء عندهما، وقال محمد لا أحب له أن يطأها ما لم يستبرئها كما في فصل المحرمات.  قوله ( لا يقربها زوجها ) أي يحرم عليه وطئها حتى تحيض وتطهر كما صرح به شارح الوهبانية، وهذا يمنع من حمله على قول محمد؛ لأنه يقول بالاستحباب، كذا قاله المصنف في المنح في فصل المحرمات، وقدمنا عنه أن ما في شرح الوهبانية ذكره في النتف وهو ضعيف إلا أن يحمل على ما إذا وطئها بشبهة اه فافهم. قوله ( فليحفظ لغرابته ) أمر بحفظه لا ليعتمد بل ليجتنب بقرينة قوله لغرابته؛ فإن المشهور في المذهب أن ماء الزنا لا حرمة له لقوله للذي شكا إليه امرأته إنها لا تدفع يد لامس "طلقها" فقال إني أحبها وهي جميلة فقال له "استمتع بها". وأما قوله "فلا يسقي ماءه زرع غيره" فهو وإن كان واردا عنه، لكن المراد وطء الحبلى؛ لأنه قبل الحبل لا يكون زرعا بل ماء مسفوحا، ولهذا قالوا لو تزوج حبلى من زنا لا يقربها حتى تضع لئلا يسقي زرع غيره؛ لأن به يزداد سمع الولد وبصره حدة. فقد ظهر بما قررناه الفرق بين جواز وطء الزوجة إذا رآها تزني، وبين عدم جواز وطء التي تزوجها وهي حبلى من زنا فاغتنمه.  قوله ( لو عالمة راضية ) فإن لم تكن عالمة بأن راجعها وهي لا تشعر أو أكرهها على النكاح لم تكن ناشزة؛ لأنها لم تقصد منع نفسها عن الأول، أفاده ط. قوله ( كما مر ) أي في شرح قول المصنف الموطوء بشبهة، و قد أطال هناك علی ما هنا.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

18/ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب