021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لائف انشورنس کا حکم
75058سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء  کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ہم دو بھائی مدرسے میں پڑھتے ہیں ہمارے والد صاحب نے 2007  میں لائف انشورنس میں رقم جمع   کرانا شروع کی،اور ہمیں اس بارے میں پتا نہیں تھا،اب ہمیں پتا چلا کہ یہٍ تو سود ہے جوکہ حرام ہے۔ہم نے والد صاحب  سے بات کی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے محنت  مزدوری کر کہ انتے سالوں سے رقم جمع کروا رہا ہوں،اس کو ختم نہیں کرسکتا،اگرختم کردی تو یہ رقم ضائع ہوجائے گی۔

1-کیا اس طرح کی پالیسی کو جاری رکھنا جائز ہے؟

2-کیا اصل رقم کو استعمال کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ  انشورنس خواہ لائف(زندگی)کی ہو یا کسی اور شی کی نا جائز اور ممنوع ہے۔انشورنس پالیسی میں ملنے والی زائد رقم سود ہے،اس لیےکہ بیمہ ہولڈر سے لی گئی رقم کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے،پالیسی لینے والا شخص  قرض خواہ اور انشورنس کمپنی قرض دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔چونکہ شرعی اعتبارسے قرض پر معاہدے کے تحت  زائدرقم لینا سود ہے،اورکمپنی اپنے پالیسی ہولڈر کو اس  کی جمع شدہ رقم پر زائد رقم ادا کرنے کی پابند  ہوتی ہے اور یہ سود ہے۔

  1. اس طرح کی پالیسی کو جاری رکھنا ناجائز ہے۔
  2. اصل رقم کو استعمال کرسکتے ہیں،لیکن اصل رقم سے زائد کو بلانیت ثواب صدقہ کرنا لازمی ہے۔
حوالہ جات
وَأَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا فَمَنْ جاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللهِ وَمَنْ عادَ فَأُولئِكَ أَصْحابُ النّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ. (سورۃالبقرۃ:275)
‌‌‌‌يَمْحَقُ اللهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ وَاللهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفّارٍ أَثِيمٍ .(سورۃالبقرۃ:276)
‌‌‌‌يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ.(سورۃالبقرۃ:278)
‌‌‌‌فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُسُ أَمْوالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُون.(سورۃالبقرۃ:29)
                                                عن جابر رضی اللہ عنہ قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:آکل الربواومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ،وقال :ھم سواء.(مسلم:2/27)
قال الإمام القرطبی:قال علماءنا : إن سبیل التوبۃ مما بیدہ من الأموال الحرام، إن کانت من ربا، فلیردھا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرا،فان أیس من وجودہ،فلیتصدق بذلک عنہ.(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:3/248)
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا .(ردالمحتار:7/395)
والشبهة في باب الربا كالحقيقة.(فتح اقدیر:7/136)
قال المرغینانی رحمہ اللہ:ولاربا بین المولی وعبدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وھذاإذامأذونالہ،ولم یکن علیہ دین،وإن کان علیہ دین لایجوز بالاتفاق.(الھدایۃ:3/124)
 

سہیل جیلانی

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

29/جمادی الاولی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سہیل جیلانی بن غلام جیلانی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب