78305 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
شادی ہال کا بزنس حلال ہے یا حرام؟کیونکہ شادی میں میوزک وغیرہ بھی شادی حال والے ارینج کرتے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شادی ہال بنا نا اور اسے کرائے پر دینا فی نفسہ جائز ہے اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے، البتہ گانا بجانا بہت بڑا گناہ ہے جس پر قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بہت سخت وعید آئی ہے۔شادی ہال والے کے لیے گانے بجانے کا انتظام کرنا جائز نہیں اور ساز باجے کے بدلے حاصل ہونے کمائی حرام ہو گی۔بہتر ہے کہ کرائے پر دیتے وقت ساز باجے وغیرہ کی شناعت بیان کر کے اس کے حوالے سے کسی بھی قسم کے انتظامی تعاون سے معذرت کر لی جائے۔اس قسم کی تحریر شادی ہال کے تعارف نامے یا رسید کے پیچھے بھی چھاپی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاں گانے باجے کا کوئی انتظام نہیں ہو گا۔اگر بعد میں کوئی اپنے طور پر گناہ کا کام کرے گا تو آپ کو اس کا گناہ نہ ہو گا۔
حوالہ جات
روی الإمام أبو داود رحمہ اللہ عن عبداللہ رضياللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول: إن الغناء ينبت النفاق في القلب. ( سنن أبي داود:رقم الحدیث4927)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو.( الفتاوى الهندية:4/508)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: لاتصح الإجارة لعسب التيس وهو نزوه على الإناث و لا لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي ولو أخذ بلا شرط يباح.(الدر المختار مع رد المحتار:9/75)
قال العلامۃ علاء الدين أبو بكر بن مسعود الكاساني رحمہ اللہ: وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح ؛لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء والنوح.( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:5/562)
محمد عمر الیاس
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
1جمادی الاولی،1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عمر بن محمد الیاس | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |