82296 | سود اور جوے کے مسائل | انشورنس کے احکام |
سوال
زمین کرایہ پر دینے کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ کرایہ پر لینے والا زمین کے مالک کو مثلا یکمشت دس لاکھ روپے حوالے کردیتا ہے ، اور زمین کی اجرت اس کے علاوہ ہوتی ہے ، وہ بھی اس طرح کہ اگر اڑوس پڑوس کی زمین کی اجرت مثلا 15 ہزار ہو تو مذکورہ رقم پیشگی ادا کرنے کی وجہ سے کرایہ دار سے دس ہزار کرایہ وصول کیاجاتاہے ،اور پھرکرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر مالک زمین کرایہ دار کو جمع شدہ دس لاکھ کی پوری رقم واپس کردیتا ہے ،اس طرح سے معاملہ کرنے کا شرعا کیاحکم ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسئولہ صورت میں زمین کرایہ پر لینے والے کی طرف سے پیشگی ادا کردہ دس لاکھ کی رقم زمین کی مالک کے پاس قرض ہے ، پھر مالک زمین کا اس قرض کی وجہ سے علاقے کےعام کرایہ کے مقابلے میں اپنی زمین کے کرایہ کی مقدار میں کمی کرنا یہ سود کے حکم میں داخل ہے ، لہذا یہ معاملہ ناجائز اور حرام ہے ، فریقین پر لازم ہے کہ اس سودی معاملے کو ختم کریں ، آیندہ کے لئے جائز طریقہ اختیار کریں ۔
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 133)
ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز، ويجبر الدائن على قبول الأجود، وقيل لا كذا في المحيط، وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام، والشرط ليس بلازم بأن يقرض على أن يكتب إلى بلد كذا حتى يوفي دينه. اهـ.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 310)
وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن قرض جر نفعا» وقيل هذا إذا كانت المنفعة مشروطة وأما إذا لم تكن فلا بأس بذلك اهـ. وقال الكمال.
وفي الفتاوى الصغرى وغيرها إن كان السفتج مشروطا في القرض فهو حرام والقرض بهذا الشرط فاسد وإن لم يكن مشروطا جاز وصورة الشرط ما في الواقعات رجل أقرض رجلا على أن يكتب له بها إلى بلد كذا فإنه لا يجوز وإن أقرضه بغير شرط وكتب جاز ثم قالوا إنما يحل عند عدم الشرط إذا لم يكن فيه عرف ظاهر فإن كان يعرف أن ذلك يفعل كذلك فلا. اهـ.
احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
١۷جمادی الثانیہ ١۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ شائق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |