021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنگل میں شکار کے لئے حکومتی لائسنس کاحکم
82344جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

جناب  مفتی صاحب  ہمارے ہاں  شکار کرنے  کے لئے  باقاعدہ حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے ،اس کے لئے حکومت ہمیں  لائسنس فراہم کرتی ہے ،اس لائسنس کے لئے   حکومت فیس  بھی لیتی  ہے ، پھر ہر سال اس لائسنس کو رینیو  کروانا  پڑتا ہے ، ہر سال  رینیو  فیس پانچ ہزار  ادا کرنے پڑتے  ہیں ،تو کیا اس طرح فیس  لینا حکومت کے لئے  جائز ہے؟ 

اور ہمارے لئے کیاحکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جنگلات  اور جنگلی  حیات وحیوانات   کسی بھی   ملک کی  اجتماعی ضرورت ہوتی  ہے ، اس کی بقاء حکومتی  انتظام کے بغیر ممکن نہیں ، بالخصوص آبادیا ں بڑھنے اور بد نظمی نے اس ضرورت کو دو چند کردیا ہے،اس لئے جیسے حکومت  کچھ چیزوں  کی  تجارت ، یا درآمد برآمد  پر پابندی لگائے تو جائز ہوگا ،اسی طرح  شکار پر مکمل پابندی  لگانا  یا کچھ شرائط وغیرہ کے ساتھ  اجازت دینا جائز ہے،لہذاحکومت  اگر  مخصوص  علاقے  کو اپنی  تحویل  میں لے اور  اس میں  مخصو ص قسم کے جانور چھوڑے اور پرورش کرے ،  اور  ان  کی حفاظت  کاانتظام  کرے ، اور شکار  کرنے والوں کی جان ومال کا تحفط کرے ،ایسے  میں اگر کسی  کو  اس مخصوص  علاقے میں   شکار کرنے کی اجازت دے ،اس کے لئے  انتظامی   طورپر لائسنس  جاری  اور اس جگہ کے استعمال کی فیس وصول کرے  تو   اس طرح فیس  وصول کرنا  ، اور لائسنس  حاصل کرنے والوں  کا فیس ادا  کرنا  جائز  ہے ،نیز حکومت پورے جنگلات   کو بھی  اپنی تحویل میں  لے کراس میں عمومی شکار  کی ممانعت کردے ، مخصوص   حامل لائسنس  افراد  کو   اجازت دے ،پھر لائسنس  کے اجراء  کے لئے  فیس وصول کرے ، تو بھی فیس کے لین دین کی گنجائش ہوگی ، البتہ اس میں بھی  لائسنس  حاصل  کرنے کے   معاملے  میں  رشوت  کا لین  دین  ناجائز اور  حرام ہوگا ۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 401)
وعلى إباحته انعقد الإجماع ولأنه نوع اكتساب وانتفاع بما هو مخلوق لذلك، وفيه استبقاء المكلف وتمكينه من إقامة التكاليف فكان مباحا بمنزلة الاحتطاب
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 61)
ولم تجز إجارة بركة ليصاد منها السمك بحر
 (قوله ولم تجز إجارة بركة إلخ) قال في النهر: اعلم أن في مصر بركا صغيرة كبركة الفهادة تجتمع فيها الأسماك هل تجوز إجارتها لصيد السمك منها؟ نقل في البحر عن الإيضاح عدم جوازها. ونقل أولا عن أبي يوسف في كتاب الخراج عن أبي الزناد قال: كتبت إلى عمر بن الخطاب في بحيرة يجتمع فيها السمك بأرض العراق أنؤجرها؟ فكتب إلي أن افعلوا،وما في الإيضاح بالقواعد الفقهية أليق اهـ. ونقل في البحر أيضا عن أبي يوسف عن أبي حنيفة عن حماد عن عبد الحميد بن عبد الرحمن أنه كتب إلى عمر بن عبد العزيز يسأله عن بيع صيد الآجام، فكتب إليه عمر إنه لا بأس به وسماه الحبس اهـ.
ثم قال في البحر: فعلى هذا لا يجوز بيع السمك في الآجام إلا إذا كان في أرض بيت المال، ويلحق به أرض الوقف. وقال الخير الرملي: أقول: الذي علم مما تقدم عدم جواز البيع مطلقا سواء كان في بحر أو نهر أو أجمة، وهو بإطلاقه أعم من أن يكون في أرض بيت المال أو أرض الوقف، وما تقدم عن كتاب الخراج غير بعيد أيضا عن القواعد، ومرجعه إلى إجارة موضع مخصوص لمنفعة معلومة هي الاصطياد،
ما حدث أبو حنيفة عن حماد مشكل فإنه بيع السمك قبل الصيد.
المبسوط للسرخسي (23/ 175)
قال أبو يوسف، وسألت أبا حنيفة - رحمه الله - عن الرجل استأجر النهر يصيد فيه السمك أو استأجر جهة يصيد يها السمك قال لا يجوز؛ لأن المقصود بهذا الاستئجار ما هو عين، وهو السمك؛ ولأن السمك في النهر والأجمة على أصل الإباحة لا اختصاص به لصاحب النهر والأجمة، فلا يكون له أن يأخذ العوض عنهم بطريق الإجارة، والبيع ثم استئجار النهر لصيد السمك كاستئجار المقابض للاصطياد فيها، وذلك كله من باب الغرر.

 احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۷جمادی الثانیہ  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے