021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گاہکوں کی نوعیت کے لحاظ سے قیمت میں کمی بیشی کرنا
53269القرآنآل عمران

سوال

ہم بنیان جراب وغیرہ کا ہول سیل کا کام کرتے ہیں لیکن مختلف گاہکوں سے ایک ہی چیز کی مختلف قیمت مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پروصول کرتے ہیں : I. ہوشیاراور دیہاتی گاہک میں فرق رکھتے ہیں کیونکہ ہوشیار گاہک بڑے شہروں میں جاتا رہتا ہے اور مارکیٹ کی چیزوں سے واقفیت رکھتا ہے اس سے کم منافع پر بیچتے ہیں اور عام گاہک جو زیادہ ہوشیار نہیں ہوتا اس سے زیادہ منافع لیتے ہیں۔ II. ہمیں معلوم ہوتاہے کی فلاں گاہک دوسری دوکان کا خریدار ہے صرف ہمارے ریٹ معلوم کرنے یا کوئی چیز دوسری دوکان پر نہیں تو ہمارے پاس آیا ہے اس کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے کم قیمت پر چیز دے دیتے ہیں۔ III. معروف چیز جس کی قیمت عموما تمام لوگوں کو معلوم ہوتی ہے ہم بہت سستی بیچتے ہیں تاکہ ہماری مشہوری ہو کہ وہ کم منافع لیتے ہیں لیکن غیر معروف چیز خوب مہنگی بیچتےہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نفع کی کوئی حد شریعت نے مقرر نہیں کی ،لیکن یہ اس صورت میں ہےجب معاملے میں کوئی دھوکا نہ ہو اور خریدار اور فروخت کنندہ اصل قیمت کو جانتے ہوئے باہمی رضامندی سے لین دین کریں ۔خریدار کی مارکیٹ سے ناواقفیت کی بناء پر اس سے بہت زیادہ قیمت لینے میں اس کے ساتھ دھوکا بھی ہے اور اس میں خریدارکا بہت زیادہ نقصان بھی ہے جو شرعا درست نہیں۔ اور اس سے مراد اتنی قیمت وصول کرنا ہےجس پرکوئی بھی گاہک جانتے ہوئے راضی نہیں ہوتا۔بعض فقہاء نے اس کی مقدار یہ بیان کی ہےکہ مارکیٹ میں جو قیمت رائج ہے اس سےاتنی زیادہ قیمت لی جائےکہ زیادتی پانچ فیصدسے بڑھ جائے۔لہذا کوئی دکاندار اگر اتنی زیادہ قیمت لے تو معلوم ہونے پر گاہک کو اختیار ہے کہ وہ چیز واپس کر کے(جب کہ وہ اپنی اصل حالت پر موجود ہو)اپنے پیسے واپس وصول کرلے۔

حوالہ جات
قال في الدر المختار: "(و) اعلم أنه (لا رد بغبن فاحش) هو ما لا يدخل تحت تقويم المقومين (في ظاهر الرواية) وبه أفتى بعضهم مطلقاكما في القنية.ثم رقم وقال (ويفتى بالرد) رفقا بالناس، وعليه أكثر روايات المضاربة، وبه يفتى." (ج:5،ص:267،المكتبةالشاملة) وفي البحر الرائق: " وفسر المؤلف ما يتغابن الناس فيه بما يدخل تحت تقويم المقومين فعلم منه أن الغبن الفاحش ما لا يدخل تحت تقويم المقومين وهذا هو الأصح كما في المعراج وفي السراج الوهاج معزيا إلى الخجندي الذي يتغابن الناس في مثله نصف العشر أو أقل منه فإن كان أكثر من نصف العشر فهو مما لا يتغابن الناس فيه وقال نصير بن يحيى: ما يتغابن الناس فيه في العروض نصف العشر وفي الحيوان العشر وفي العقار الخمس وما خرج عنه فهو ما لا يتغابن الناس فيه ووجهه أن التصرف يكثر وجوده في العروض ويقل في العقار ويتوسط في الحيوان وكثرة الغبن لقلة التصرف اهـ. "

سمیع اللہ داؤد :معاملات

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

05/03/1436

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے