021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کے جی نامی ایپ (KG app) کا حکم
77950اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

کے جی ایپ سعودی عرب کی ایک ایپ ہے جس میں اپنے پیسے انویسٹ کر کے کچھ لیولز میں ٹاسک پورے کیے جاتے ہیں۔ یہ ٹاسک فیس بک پر مختلف تصاویر، ویڈیوز وغیرہ دیکھنے کے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کا اسکرین شاٹ ہم نے ایپ میں اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے۔ اس پر ہمیں پیسے ملتے ہیں۔ جتنی انویسٹمنٹ زیادہ ہوگی اتنے ہی ٹاسک زیادہ ملتے ہیں۔

کیا یہ کام کرنا شرعاً جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور کام میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:

1.     ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کا کام اجارہ (ملازمت) کا فعل ہے جس میں دیکھنے والے کو ویڈیو یا تصویر دیکھنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کام جعل سازی کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک اور یوٹیوب چینل پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔

2.     یہ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کے کام کے لیے انویسٹمنٹ کی جاتی ہے جو حقیقتاً اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے۔ یہ حق مجرد کی بیع ہے یعنی بلا کسی عوض ادائیگی کی ایک صورت ہے اور اکل بالباطل اور رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جائز نہیں  ہے اور اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان ویڈیوز اور تصاویر کے لیے انویسٹمنٹ کرنا اور انہیں دیکھنا درست نہیں ہے  اوراس کی اجرت بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ نیز اس کام میں مزید ممبر بنانا بھی جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة، ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز.
(مجلة مجمع الفقه الإسلامي، مقالة الشيخ محمد تقي العثماني، 5/1931)
 قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

01/ ربیع الاول 1444ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے