021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدفون میت کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم
81177وقف کے مسائلقبرستان کے مسائل

سوال

محمود الحق نے چارکنال زمین خورشید اور اسکے بہن بھائی سے خریدی ہے جس میں ان کے والدین اور باقی رشتہ داروں کی قبریں ہیں پانچ سے آٹھ قبریں ۔ قبرستان ان کی ذاتی ملکیت میں ہے قبرستان کی جگہ وقف بھی نہیں ہے۔ خورشید ودیگر قبروں  کی جگہ کی رقم بھی محمودالحق سے وصول کر چکے ہیں۔

مسئلہ  یہ ہے کہ جو جگہ محمود الحق نے خورشید لوگوں سے لی ہے، اس میں قبرستان کی جگہ درمیان میں ہے۔ محمود الحق اس ساری زمین پر ایک بارہ منزلہ عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے، اس صورت میں قبرستان درمیان میں آرہا ہے۔  اس صورت میں کیا قبرستان سے ڈیڈباڈیز کو کسی دوسرے قبرستان میں منتقل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ اس جگہ پر عمارت بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس عمارت میں دو  تین ہزار افراد کو روزگار میسر ہو سکے گا کیونکہ محمودالحق نے ایک کمپنی کھولی ہوئی ہے جس میں اس وقت پانچ ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ جگہ لینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار میسر ہو۔ محمودالحق اور خورشید لوگ پہلے سے پڑوسی ہیں ۔آپ رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں قبرستان کا کیا جائے؟ پہاڑی علاقہ ہے کٹائی کرتے ہیں تو قبرستان کو خطرہ ہے ۔ نہیں  کرتے تو قبرستان عمارت کے درمیان میں آجاتا ہے جس سے قبروں کی بے حرمتی ہوتی ہے آپ رہنمائی فرمائیں اس صورت میں کیا کیا جائے؟  آپ کو جگہ کی تصویر بھی بھیجی ہے یہ بلڈنگ محمودالحق کی ہے جس میں کمپنی ہے پانچ ہزار افراد کام کرتے ہیں ساتھ میں جو جگہ ہے سبز لکیر کے اندر وہ خورشید لوگوں سے لی ہے اس میں جس جگہ سرخ نشان لگایا گیا ہے وہ قبرستان ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر موجودہ قبریں اتنی پرانی ہوچکی ہوں کہ مردوں کا مٹی ہوجانے کا غالب گمان ہو تو زمین کو ہموار کرکے اس پر تعمیرات کی جاسکتی ہیں لیکن اگر قبریں اتنی پرانی نہ ہو ں کہ مردوں کا مٹی ہوجانے کا غالب گمان ہوتو اطراف میں پلر لگائے جائیں  اور قبروں پر چھت بنا کر  اس پر مزید عمارتیں تعمیر کی جائیں،  تو یہ زیادہ اولیٰ ہوگا تاکہ میت نکالنے کی نوبت نہ آئے ۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو زمین کا مالک مرحومین کے متعلقین کو اپنے مردے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا مطالبہ کرکے زمین خالی کرواسکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔

حوالہ جات
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 473، بترقيم الشاملة آليا)
فإن قلت هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين قلت قال ابن القاسم لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد فمعناهما على هذا واحد وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر ولم يبق حوله جماعة والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكا لأربابها فإذا عادت ملكا يجوز أن يبنى موضع المسجد دارا وموضع المقبرة مسجدا وغير ذلك فإذا لم يكن لها أرباب تكون لبيت المال وفيه أن القبر إذا لم يبق فيه بقية من الميت ومن ترابه المختلط بالصديد جازت الصلاة فيه۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 451، بترقيم الشاملة آليا)
( باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد )
معناه ظاهر وهو جواز نبش قبور المشركين لأنه لا حرمة لهم فيستفاد منه عدم جواز نبش قبور غيرهم سواء كانت قبور الأنبياء أو قبور غيرهم من المسلمين لما فيه من الإهانة لهم فلا يجوز ذلك لأن حرمة المسلم لا تزول حيا وميتا
الفتاوى الهندية (2/ 472)
ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها وإذا حفر الرجل قبرا في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتا لا ينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره ليكون جمعا بين الحقين كذا في خزانة المفتين
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)
(قوله ولا يخرج من القبر إلا أن تكون الأرض مغصوبة) أي بعد ما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه وصرحوا بحرمته وأشار بكون الأرض مغصوبة إلى أنه يجوز نبشه لحق الآدمي كما إذا سقط فيها متاعه أو كفن بثوب مغصوب أو دفن في ملك الغير أو دفن معه مال أحياء لحق المحتاج قد «أباح النبي - صلى الله عليه وسلم - نبش قبر أبي رعال لعصا من ذهب معه» كذا في المجتبى قالوا، ولو كان المال درهما ودخل فيه ما إذا أخذها الشفيع فإنه ينبش أيضا لحقه كما في فتح القدير وذكر في التبيين أن صاحب الأرض مخير إن شاء أخرجه منها وإن شاء ساواه مع الأرض وانتفع بها زراعة أو غيرها وأفاد كلام المصنف أنه لو وضع لغير القبلة أو على شقه الأيسر أو جعل رأسه في موضع رجليه أو دفن بلا غسل وأهيل عليه التراب فإنه لا ينبش قال في البدائع؛ لأن النبش حرام حقا لله تعالى، وفي فتح القدير واتفقت كلمة المشايخ في امرأة دفن ابنها، وهي غائبة في غير بلدها فلم تصبر وأرادت نقله أنه لا يسعها ذلك فتجويز شواذ بعض المتأخرين لا يلتفت إليه اهـ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 238)
(قوله إلا لحق آدمي) احتراز عن حق الله تعالى كما إذا دفن بلا غسل أو صلاة أو وضع على غير يمينه أو إلى غير القبلة فإنه لا ينبش عليه بعد إهالة التراب كما مر (قوله كأن تكون الأرض مغصوبة) وكما إذا سقط في القبر متاع أو كفن بثوب مغصوب أو دفن معه مال قالوا: ولو كان المال درهما بحر. قال الرملي: واستفيد منه جواب حادثة الفتوى: امرأة دفنت مع بنتها من المصاغ والأمتعة المشتركة إرثا عنها بغيبة الزوج أنه ينبش لحقه، وإذا تلفت به تضمن المرأة حصته اهـ واحترز بالمغصوبة عما إذا كانت وقفا. قال في التتارخانية: أنفق مالا في إصلاح قبر فجاء رجل ودفن فيه ميته، وكانت الأرض موقوفة يضمن ما أنفق فيه، ولا يحول ميته من مكانه لأنه دفن في وقف اهـ. وعبر في الفتح بقوله يضمن قيمة الحفر فتأمل (قوله أو أخذت بشفعة) أي بأن اشترى أرضا فدفن فيها ميته ثم علم الشفيع بالشراء فتملكها بالشفعة (قوله ومساواته بالأرض) أي ليزرع فوقه مثلا لأن حقه في باطنها وظاهرها، فإن شاء ترك حقه في باطنها وإن شاء استوفاه فتح (قوله: كما جاز زرعه) أي القبر ولو غير مغصوب وكذا يجوز دفن غيره عليه كما في الزيلعي أيضا، وقدمنا الكلام عليه

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/صفر الخیر / 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے