021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصب کی زمین پرنمازپڑھنے کاحکم
81218وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

یافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک  علاقے میں دیوبندیوں کی مسجد نہیں تھی جس کی وجہ سےدیوبنداور بریلوی فرقوں میں آپس میں جھگڑے ہوتے تھے جس کے باعث سائل نے اپنے گھر کے نچلے حصے کو کرایہ داروں سے خالی کراکر دیوبند ی اہلِ علاقہ کو اپنے گھر میں باجماعت نماز اور مسجد کے اعمال کی اجازت دی اور ایک لمبے عرصے سے علاقے میں تبلیغی جماعتوں کے آنے جانےکا سلسلہ بحال ہوا ،اس طرح آٹھ سال تک سائل کے گھر میں نماز ،اعمال ِمسجد اور جماعتوں کا سلسلہ چلتا رہا، کچھ عرصہ کےبعد سائل نے اپنے گھر کا آدھا حصہ مسجد کو وقف کر دیا پھر اہل علاقہ کے پرزور اصرار اور تعمیر میں تعاون پر جامعہ مسجد کے حصول کے لیے سارا گھر ڈھا کر تعمیر شروع کی گئی اور اس دوران سائل عارضی طور پر کرایہ کے گھر میں شفٹ ہو گیا۔اہل علاقہ کی نیت میں فتور اور دھوکہ دہی تھی اوراس وجہ سے انہوں نے غیروقف شدہ حصہ کوبھی مسجد میں شامل کر لیا اور سائل کے استفسار پر کہا آپکو ساتھ والا پلاٹ خرید کر اس پر گھر بناکر دے دیا جائے گا ،مسجد وسیع رہنے دیں اور سائل کو فی الحال گرین بیلٹ پر رہائش کا کہا گیا۔ فریقین کے مابین اس معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔ بعدازاں گھر اور مسجد پر قبضہ کرکے سائل اور اسکے اہلخانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں  اور اسے سب کچھ الله کے لیے چھوڑ کر وہاں سے جانے کو کہا جانے لگا جبکہ سائل کی یہی کل جائیداد ہے ،ایسے میں سائل نے اپنی مقبوضہ زمین پر نماز کی اجازت نہیں دی، لیکن گھر اور مسجد پر قبضہ کر کے نماز اور جمعہ ادا کرنے لگا۔مختصر یہ کہ سائل کو عدالت سے رجوع کر کے سٹے آڈر لینا پڑا عدالت کے آڈر کے باعث تعمیراتی کام بند کرنے کا حکم ملا۔ اسکے باوجود وقتا فوقتاً خاموشی سے یا غنڈہ گردی سے تعمیراتی کام ہوتا رہتا ہے ،اس ساری صورتحال میں پوچھنایہ ہے کہ  

   مقبوضہ زمین پر (جہاں نماز پڑھنے پڑھانے کی اجازت نہ دی دی گئی ہو پھر بھی نمازہو رہی ہو ) کیا نماز ہو سکتی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں جس شخص نے آپ کے پلاٹ کےغیر وقف حصہ پر آپ کی اجازت کے بغیرمسجدتعمیر کی ہے

اورآپ نے بعد میں بھی اس کی جازت نہیں دی تو یہ شرعا ً غصب ہے،اور اس میں آپ کو پورااختیار ہے کہ اس شخص کو مجبور کرے کہ وہ ملبہ اٹھا کر لیجائے اور آپ کے پلاٹ کاغیروقف حصہ خالی کردے،یاآپ قیمت لیکر اس کو مسجد کےلیے چھوڑ دیں۔

مالک کی اجازت کے بغیر غصب کی زمین پر نماز  پڑھنا  مکروہ   ہے  ،یہ عمل گناہ  کے ساتھ ساتھ نماز کے ناقص ہونے کا بھی ذریعہ ہےلہذا  اس  سے اجتناب لازم ہے، تاہم غصب شدہ زمین پرپڑی گئی نماز فی نفسہ ادا ہوجاتی ہے اس کی اعادے کی ضرورت نہیں رہتی ۔

حوالہ جات
وفی الشامیة:
ولیس لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي(شامي، کتاب الحدود / باب التعزیر، مطلب: في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الغصب / الباب السابع في حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۱۶۷ ، البحر الرائق، کتاب الحدود / باب حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۶۸ زکریا، النہر الفائق، کتاب الحدود / باب حد القذف ۳؍۱۶۵)
وفی صحيح البخاري( 3/ 130)
عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين .
وفی رد المحتار( 4/ 341)
لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح .
وفی الہدایۃ ۳(؍۳۷۳)
و علی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ، فإن أخذہ فلیردہ علیہ ………، ورد القیمۃ مخلص خلفًا .
وفی رد المحتار:
قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التأبید۔ والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ وکذا لو کانت ملکًا لہ؛ فإنّ لورثتہ بعدہ ذٰلک، فلا یکون الوقف مؤبدًا ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن الشحنۃ مع شیخہ العلامۃ قاسم في وقف البناء ۴؍۳۹۰ کراچی)
وفی الدر المختار مع رد المحتار (55/2)
وكذا تكره في أماكن كفوق كعبة….. وأرض مغصوبة أو للغير وفى حاشية ابن عابدين: بنى مسجداً على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛لأنه حق العامة فلم يخلص للّٰه تعالى كالمبني في أرض مغصوبة .
وفی الفتاوى الهندية:(121/1)
الصلاة فى أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين اللّٰه تعالي يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب كذا فى مختار الفتاوى،الصلاة جائزة فى جميع ذالك لاستجماع شرائطهاواركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم فى كل صلاة أديت مع الكراهة كذا في الهداية،فان كانت تلك الكراهة كراهة تحريم تجب الإعادة أو تنزيه تستحب فإن الكراهة التحريمية في رتبة الواجب كذا في فتح القدير
وفی احسن الفتاوی(428/3)
ایک غیر مسلم کی زمین میں بغیر اس کی اجازت کے مسجد بنائی گئی یہ جگہ مسجد نہیں،بدون اذن مالک اس میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے؛ اس لیے نماز کا اعادہ واجب ہے۔
وفی آپ کے مسائل اور ان کا حل(185/2)
غصب کردہ جگہ میں مسجد بنانا درست نہیں،اس لیےغصب کی ہوئی جگہ میں جو مسجد بنائی گئی ہے جب تک زمین کا مالک اس کو مسجد کے لیے وقف نہ کرے اس پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے،اور وہاں نماز پڑھنا گناہ ہے گو نماز ہو جائے گی۔

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

19/2/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے