021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے وقف ایک جگہ بیچ کر دوسری جگہ خریدنے کا حکم
81405وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

دو بھائیوں نے گھر کے لیے جگہ خریدی، پھر باہمی مشورے سے اس کو مسجد کے لیے وقف کردیا۔ اس گلی میں نزدیک  دوسروں لوگوں نے مسجد بنادی۔ اب دوسری مسجد بنانے کی ضرورت نہیں ہے، تو اس جگہ کو بیچنا درست ہے کہ ان پیسوں سے کسی دوسری جگہ مسجد کے لیے جگہ خریدے۔

وضاحت: سائل نے زبانی وضاحت کی ہے کہ یہاں کی آبادی بھی اتنی نہیں ہے کہ اگلی نصف صدی تک دوسری مسجد کی ضرورت پڑے، پہلی مسجد میں توسیع کے لیے بھی یہ پلاٹ استعمال نہیں ہوسکتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ایک بار وقف کے مکمل ہونے  سے موقوفہ زمین ہمیشہ کے لئے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے،اس کے بعد اس کی خریدوفروخت کرنا ،تبدیل کرنا یا اس میں کسی قسم کا تصرف کرنا ہرگز جائز نہیں ہوتا، البتہ اگر پہلی جگہ مسجدبنانے میں وقف کے منافع ومقاصد فوت ہوتے ہوں تو ایسی صورت میں جماعت المسلمین کے کچھ لوگوں کے مشورے سے اس کو بیچ کر دوسری جگہ وقف  یعنی مسجد بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں پہلی جگہ چونکہ مسجد تعمیر ہوگئی ہے اور دوسری مسجد کی ضرورت نہیں ہے اس لئے مذکورہ طریقے سے موقوفہ زمین کو بیچ کر اس کی رقم سے دوسری جگہ مسجد کے لیے جگہ خریدنا یا وقف شدہ دوسری جگہ جہاں مسجد تعمیر ہورہی ہے وہاں اس رقم کو صرف کرنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 384)
اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 386)
[مطلب في استبدال الوقف وشروطه]
وشرط في البحر خروجه عن  الانتفاع بالكلية وكون البدل عقارا والمستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل، وفي النهر أن المستبدل قاضي الجنة فالنفس به مطمئنة فلا يخشى ضياعه
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 134)
(وإذا لزم) الوقف (وتم لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه (ولا يملك) أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه (ولا يعار ولا يرهن) لاقتضائهما الملك الخ
الفتاوى الهندية 2/400
 وليس للقيم ولاية الاستبدال إلا أن ينص له بذلك۔
ولو كان الوقف مرسلا لم يذكر فيه شرط الاستبدال لم يكن له أن يبيعها ويستبدل بها وإن كانت أرض الوقف سبخة لا ينتفع بها كذا في فتاوى قاضي خان وقد اختلف كلام قاضي خان ففي موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف حيث رأى المصلحة فيه، وفي موضع منعه منه ولو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش كذا في البحر الرائق وشرط في الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل كذا في النهر الفائق۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 358)
مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

21/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے