021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولاد میں جائیداد تقسیم کرنے کے بعد کسی کو اس کے حصے کا کرایہ نہ دینا
81466ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرا نام حسنین جعفر ہے، میری عمر 27 سال ہے، میری پیدائش کے بعد میرے والد نے مجھے اپنی بہن یعنی میری پھوپھی کے حوالے کیا تھا جن کی اس وقت کوئی اولاد نہیں تھی، بعد میں میری پھوپھی کے یہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوگیا، لیکن اس کے باوجود میں اپنی پھوپھی کے پاس ہی رہا۔ میں اپنی پھوپھی کے ہاں ان کی اولاد کی طرح رہ رہا ہوں، یہاں تک کہ میرے شناختی کارڈ میں بھی والد کے خانے میں میرے پھوپھا اور والدہ کے خانے میں پھوپھی کا نام لکھا ہے، جبکہ میرے حقیقی والد اور والدہ کو میں بڑے ابو اور بڑی امی کہتا ہوں۔ میری شادی بھی پھوپھا اور پھوپھی نے کرائی ہے اور شادی کے بعد بھی میں اب تک ان ہی کے پاس رہ رہا ہوں۔  

میرے حقیقی والد کے میرے علاوہ چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، مجھے ملا کر پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میرے والد کے پاس آٹھ (8) دکانیں ہیں جن میں سے چار دکانوں پر ایک ہوٹل ہے جو کرایہ پر دیا گیا ہے، اس کا کرایہ چالیس (40) ہزار روپے آتا ہے۔ دو دکانیں دودھ والے کو کرایہ پر دی ہیں، جبکہ ایک اسٹیٹ ایجنسی کو اور ایک مکینک کو کرایہ پر دی ہوئی ہے۔

  اب میرے والد نے اسٹیٹ ایجنسی اور مکینک کی دو دکانیں اپنے دو بیٹوں کو دے دی ہیں، دوسری دو دکانیں اپنے لیے رکھ لی ہیں، اور دکانیں جن میں ہوٹل بنا ہوا ہے اسے ایک بہن اور باقی ہم تین بھائیوں میں تقسیم کیا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس ہوٹل کا کرایہ جو کہ چالیس ہزار روپے آتا ہے، ہم تین بھائیوں اور بہن میں دس دس ہزار روپے تقسیم ہونا ہے۔ مگر میرے بڑے بھائی کا آپریشن ہوا تھا، اس کے لیے والد صاحب نے آٹھ لاکھ روپے قرض لیا تھا جو واپس کرنا ہے، میرے ساتھ ہوٹل میں شریک بہن اور دو بھائی کہہ رہے ہیں کہ حسنین جعفر کا جو کرایہ آرہا ہے وہ اسے نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس سے والد صاحب کا قرض اتارا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ حسنین جعفر کا کوئی حق نہیں بنتا، ان کے بقول انہوں نے اس بارے میں فتویٰ لیا ہوا ہے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا مجھے اپنے حق سے محروم کرنا ٹھیک ہے؟ جبکہ باقی سارے بھائی اور بہن اپنا  اپنا حق وصول کر رہے ہیں۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ والد صاحب نے دو بھائیوں کو تو الگ الگ دکانیں قبضہ کے ساتھ دی ہیں، لیکن ہم تین بھائیوں اور ایک بہن کو جو چار دکانیں دی ہیں وہ الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ چار دکانوں پر مشتمل ایک ہال ہے جس کے درمیان دیواریں نہیں ہیں، ہر ایک کے حصے کا الگ الگ تعین بھی نہیں کیا، بس یہ کہا ہے کہ یہ آپ چاروں کا ہے۔ یہ دکانیں والد صاحب نے ہمیں پچھلے مہینے دی ہے، ایک مہینے کا کرایہ آچکا ہے، لیکن میرا حصہ وہ مجھے دینے کے لیے تیار نہیں، جیساکہ اوپر لکھا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں سمجھنا ضروری ہے۔

(1)۔۔۔ کسی بچے کو بطورِ لے پالک پالنے سے شرعا نسب اور میراث وغیرہ کے احکام تبدیل نہیں ہوتے، لے پالک بچہ تمام احکام میں اپنے اصل والد اور والدہ ہی کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کا شناختی کارڈ میں والد اور والدہ کے خانے میں پھوپھا اور پھوپھی کا نام لکھنا درست نہیں، اس کو تبدیل کر کے اپنے اصل والد اور والدہ کا نام لکھوائیں۔

(2)۔۔۔ والد صاحب زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرے تو وہ شرعا "ہبہ" یعنی گفٹ کہلاتا ہے، اس میں اولاد کے درمیان برابری کرنا یا کم از کم میراث کے اصول کے مطابق تقسیم کرنا شرعا ضروری ہے۔

(3)۔۔۔ جب آپ کے والد صاحب نے چار دکانوں پر مشتمل یہ جگہ آپ تین بھائیوں اور ایک بہن کو تقسیم کیے بغیر ہبہ کردی تو حضراتِ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک یہ ہبہ مکمل ہوا اور آپ چاروں اس جگہ کے مالک بن گئے۔ البتہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ہبہ آپ چاروں کے حق میں درست نہیں ہوا، کیونکہ یہ ایک سے زیادہ افراد کو قابلِ تقسیم مشاع (وہ چیز جس میں ہر ایک کا حصہ الگ الگ نہ ہو) چیز کا ہبہ ہے جو کہ ان کے نزدیک جائز نہیں، تاہم جب آپ لوگوں نے اس جگہ کا کرایہ وصول کرنا شروع کیا تو آپ سب کا اس جگہ پر قبضہ ہوگیا اور ہبۃ المشاع میں اگر موہوب (جو چیز ہبہ کی گئی ہو) پر موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی ہو) کا قبضہ ہوجائے تو ایک روایت کے مطابق وہ ہبہ مکمل ہوجاتا ہے، آج کل خاص حالات میں ضرورت کے وقت اس رائے کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں بھی چونکہ والد صاحب آپ چار کے علاوہ دو بیٹوں کو الگ الگ دکانیں دے چکا ہے، اور آپ چاروں کو کیا گیا ہبہ درست نہ ماننے کی صورت میں ناانصافی کا اندیشہ ہے، اس لیے اس ہبہ کو درست مانا جائے گا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے بھائیوں اور بہن کے لیے جائز نہیں کہ والد صاحب کا قرض ادا کرنے کے لیے آپ کے حصے کا کرایہ آپ کی اجازت کے بغیر استعمال کریں، ان پر لازم ہے کہ ہر ماہ آپ کے حصے کا پورا کرایہ آپ کو بر وقت دیں۔ البتہ اگر والد صاحب کے پاس اپنا قرضہ ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو یا وہ ویسے اپنی اولاد سے اس قرض کی ادائیگی میں تعاون کا مطالبہ کریں تو آپ سب بہن بھائیوں کو اس سلسلے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔

حوالہ جات
الهداية (3/ 226):
 قال: وإذا وهب اثنان من واحد دارا جاز لأنهما سلماها جملة وهو قد قبضها جملة فلا شيوع، وإن وهبها واحد من اثنين لا يجوز عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا: يصح؛ لأن هذه هبة الجملة منهما؛ إذ التمليك واحد، فلا يتحقق الشيوع، كما إذا رهن من رجلين دارا. وله أن هذه هبة النصف من كل واحد منهما، ولهذا لو كانت الهبة فيما لا يقسم، فقبل أحدهما صح، ولأن الملك يثبت لكل واحد منهما في النصف، فيكون التمليك كذلك؛ لأنه حكمه، وعلى هذا الاعتبار يتحقق الشيوع.
فتاوى قاضيخان علی هامش الفتاوی الهندیة (3/ 268):
ولو وهب نصف الدار أو تصدق وسلم، ثم إن الواهب باع ما وهب أو تصدق، ذكر في وقف الأصل أنه يجوز بيعه؛ لأنه لم يقبض، ولو باعها الموهوب له لا يجوز بيعه؛ لأنه لم يملك، نص أن هبة المشاع قيما يقسم لا تفيد الملك وإن اتصل به القبض، وبه قال الطحاوي. وذكر عصام رحمه الله تعالى أنها تفيد الملك، وبه أخذ بعض المشايخ رحمهم الله تعالى.  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       27/ربیع الاول/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے