021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان کے سامان کی زکوٰۃ کا طریقہ
80640زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

مفتی صاحب! میرا ہارڈ ویئر کا کام ہے جس میں برانڈ کمپنیوں کے سامان کی ڈیلنگ کرتا ہوں یعنی کمپنی سے سامان خرید کر ہول سیل (Whole sale) پر دکانداروں کو فروخت کرتا ہوں۔ راہنمائی فرمائیں کہ اس کاروبا رکی زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے کاروبار میں ہارڈویئر کا جو سامان ہے وہ مال تجارت ہے، جس پر زکوٰۃ فرض ہونے کی دو شرائط ہیں:

1)مال تجارت کی کل مالیت (بشمول دیگر اموالِ زکوٰۃ) زکوٰۃ کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کو پہنچے۔

2)اس مالیت پر سال گزرے۔ سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس تاریخ کو آدمی صاحب نصاب بنا ہو، اگلے سال اسی تاریخ کو بھی وہ صاحب نصاب ہو۔ پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے کل مال تجارت کی مالیت خود یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ رہی ہے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہے تو آپ کے ذمہ ان کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 20):
"وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 302):
"(وشرط كمال النصاب) ۔۔۔۔۔ (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

26/ذوالحجہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے