80644 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
میں نے ایک پلازہ تعمر کروایا ہے جس کی دکانیں کرایہ پر دی ہوئی ہیں، کیا اس پلازہ پر بھی زکوٰۃ ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
دکان اور مکان کا جو کرایہ ماہانہ حاصل ہوتا ہے، اس کی جتنی رقم زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے پر محفوظ ہو، بقیہ نصاب کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی اس رقم کو بھی شامل کرکے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگا، لہذا آپ نے جو دکانیں کرائے پر دی ہیں ، ان دکانوں کے کرایہ سے حاصل ہونے والی رقم پرزکاۃ ادا کرنی ہوگی،آپ کی زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے پر جتنی رقم کرایہ کی آپ کے پاس موجود ہو اس کا ڈھائی فیصد دینا واجب ہے۔ کرایہ پر دی گئی دکانوں کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں۔
حوالہ جات
مجموعة الفتاوی (1/363):
لو اشتریٰ الرجل داراً او عبداً للتجارۃ ثم آجرہ یخرج من ان یکون للتجارۃ ولو اشتریٰ قدوراً من الصفر یمسکہا ویواجرہا لا یجب فیہا الزکاۃ کما لا یجب فی بیوت الغلۃ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔
الخانية (1/251):
ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة۔
احمد الر حمٰن
دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی
26/ذوالحجہ/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احمد الرحمن بن محمد مستمر خان | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |